Featured

ھدیۃ المومنین ترجمہ تبصرۃ المتعلمین

ھدیۃ المومنین ترجمہ تبصرۃ المتعلمین (مع اصل کتاب)
مصنف: علی بن مطھر حلی معروف بہ علامہ حلی
مترجم:مولوی سید فیض حسین صاحب
زبان:اردو
موضوع:فقہ
تعداد جلد: ۲

:تاریخ ارسال بہ ٹیلیگرام

30 july 2020

:لنک
https://t.me/joinchat/GjJQygkqT7xRA2EePhT1dw

ارسال
مولانا محمد عباس مسعود بانی شیعہ علمی آثار ڈیجیٹل لائیبریری
91-6302383399

ہماری قوم اور حالت اور اس کا ذمہ دار کون ؟


تحریر : محمد عباس مسعود
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں علمائے دین کا مقام و مرتبہ اور ان کا سماجی وقار بلند رہا ہے ۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان محترم اور مقدس جانے جاتے رہے۔علماء دین کا یہ روحانی مقام اور سماجی نفوذ صرف شیعہ اور مسلمان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر سماج میں علماء دین محترم ہیں۔چاہے وہ مندر کا پجاری ہو یا کلیسا کا پادری۔ علماء کی اتنی مخالفت کے باوجود آج بھی علماء کا وقار ویسا ہی برقرارہے بعض اوقات اس صنف میں ایسے بے عمل اور بدکردار افراد آجاتے ہیں جس سےپوری صنف پر اگلی اٹھتی ہے اس کے باوجود لوگ علماء سے اپنا رشتہ نہیں توڑتے ۔ کیوں ؟
بات در اصل یہ ہے کہ لوگ اپنی پاکیزہ فطرت کی وجہ سے اللہ ، قیامت،اور انبیاء و ائمہ کی الہی و آسمانی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں اور علمائے دین کو ان الہی تعلیمات کا محافظ، امین اور مفسر مانتے ہیں اور اسی لئے ان کی عزت کرتے ہیں اور تاریخ بھی گواہ ہے کہ ہر دور میں علماء کے گھر اور مسجدیں ہی تھیں جو سماج میں اصلاح ، خرافات سے نجات، قوم کی فلاح و بہبود بلکہ بڑے بڑے تاریخی انقلابات کا پیش خیمہ بنیں جس طرح انبیاء اپنی قوم کی دنیوی ترقی اور اخروی نجات کا باعث تھے اور اب بھی ہیں ویسے ہی علماء قوم و ملت کی ترقی اور تنزلی کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔احادیث رسول میں علماء کو اللہ ، رسول اور عوام کا امین بتایا گیا ہے جہاں یہ احادیث عالم کے مقام و مرتبہ کو اجاگر کرتی ہیں وہیں عالم دین کی سنگین ذمہ داریوں کی جانب اشارہ بھی کرتی ہیں۔
یوں تو تمام علوم انسان کیلئے اللہ کی نعمت اور اس کا لطف وکرم ہے ۔ انسان مختلف علوم میں تجربہ اور کشف سے آج ترقی کے کس مرحلہ پر پہنچ گیا ہے کتنے رازہای سربستہ منکشف ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود علم دین کی خصوصیت یہ ہے یہ علم تجربہ و کشف کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا عطا کردہ وہ علم ہے جو نبی کے ذریعہ علماء کو امانت دیا گیا ہے ۔حدیث میں ہے کہ علم دین پر عمل کرنا امانت داری ہے اور جو بے عمل ہے اس کا نام خائنوں میں لکھا جائے گا۔یہ علماء ہی ہیں جو دین کی صحیح تفسیر و تبیین اور اس پر عمل کے ذریعہ زمین کو ملکوت میں تبدیل کردیتے ہیں۔
عزیزو! علم اور اہل علم کی افادیت کا اندازہ لوگوں کی دینی و دنیوی ترقی ،اثرات اور کارکردگی سے ہوتا ہے جتنا باعمل عالم اتنا ہی وہ اپنے سماج کیلئے موثر اور محترم ہوگا ایسا عالم سماج کا تیسرا ستون ہے اگر دولت و قدرت سے لوگوں پر حکومت کی جاتی ہے تو باعمل عالم دین کے ہاتھ میں لوگوں کا دین و ایمان ہوتا ہے جس سے وہ ان کے دل پر حکومت کرتا ہے۔جس طرح قدرت و دولت کے بغیر سماج کی ترقی ممکن نہیں اس طرح عالم دین کے بغیر سماج کا پنپنا ناممکن ہے۔الحمد للہ یہ بات روز روشن کی واضح ہے کہ ہر دور میں تشیع میں زندہ ضمیر اور بیدار مغز علماء کا وجود رہا جنہوں نے اپنے علم و عمل سے حکومت و حاکم کو قابو میں کیا اور الہی قدرت و عوامی حمایت سے مظلوموں کی حمایت میں لڑتے رہے۔کہا جاتا ہے کہ قدرت ثروت اور تسبیح ایک ساتھ نہیں ہوسکتیں لیکن ہمارے علماء نے ستمگروں سے شمشیر چھینی ،دولت مند کو نصیحت کی اور حکومت و حاکم اور اہل ثروت کو شریعت کا پابند بنایا۔
علماء کا سماج پر یہ اثر دیکھ کر استکبار چونکا اور اس نے ایک ایسی چال چلی جو کسی حد تک کار گر بھی رہی ہے ۔دین دشمن یا اسلام دشمن طاقتوں نے محسوس کیا کہ اگر مذہب کا مقابلہ کرنا ہے تو مذہب کے ذریعہ ہی کرنا ہوگا تبھی کامیابی ملے گی چانچہ اس نے شیطان کی طرح عالم نما افراد کو علماء کی صف میں لاکر بٹھا دیا جس طرح فرعون نے بلعم باعور کو موسی علیہ السلام کے مقابل پیش کیا تھا اسی طرح فرعون وقت نے بلعم باعور ، کعب الاحبار، ابوہریرہ، قاضی شریح اور ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو علماء حق کے خلاف لاکر کھڑا کردیا۔
آج عالم نما افراد کی کم علمی ،لا علمی یا انکی کسی کوئی اپنی غرض ہوگی جسکی وجہ سے خرافات عام ہورہی ہیں اور انہیں بڑھاوا مل رہا ہے یہ لوگ ملنگیت، غلو، اور درویشی گری کو مقدس ناموں سے پیش کر رہے ہیں ۔ دین کا تقدس ختم کیا جارہا ہے۔شریعت کا مذاق اڑاکر عمل کی اہمیت کو کمرنگ کیا جارہا ہے۔اب مسجد رقص کا میدان بن گیا ہے ، جشن کی عظمت پامال ہوگئی ہے، عزاداری کی سادگی ختم کردی گئی ،تقلید و مرجعیت پر تنقید ہورہی ہے۔
ان فکری انحراف کا لازمی نتیجہ عوام میں عمل کی کمزوری ہے بے عملی اور بدعملی بلکہ خلاف شریعت اعمال کو انجام دیا جارہا ہے اور تو اور اس کے گناہ ہونے کا احساس بھی ختم ہوگیا ہے چنانچہ اسراف، سود خوری، جوا اور شرط لگا کر ریس اب عام سی بات بن کر رہ گئی ہےطلاق اور خلع کی شرحیں بڑھتی جارہی ہیں گھر ٹوٹتے جارہے ہیں۔
علماء حق گوشہ نشین کردیے گئے ہیں ۔ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر حال میں میدان میں کھڑے ہیں اور مذکورہ برائیوں سے بر سر پیکار ہیں مگر کچھ پر ایسی غفلت طاری ہے کہ وہ قوم کی اس حالت سے ہی بے خبر ہیں یا عوام کی جانب سے احتمالی نقصان کے پہنچنے کے خوف سے ان مسایل سے چشم پوشی کرلی اور سکوت کو ترجیح دے دی ہے ۔اور جو ان باتوں کی جانب متوجہ ہیں اور آواز بھی اٹھاتے ہیں لیکن صرف اپنی مخصوص نشستوں اور محدود افراد حد تک ہوتی ہے جب اسلام کے فلسفہ پر بات کرتے ہیں تو وہ گہری گفتگو جو صرف عالم خیال کیلئے مفید ہے ۔اگر زمین پر اتر کر زمینی حقائق کو دیکھا جائے اور اس کے بعد لائحہ عمل طے کیا جائے اور عملی اقدامات کیے جائیں تو ان باتوں کا مقابلہ مشکل نہیں اور کہیں علماء کا یہ عالم کہ اپنے ملک ، شہر کی گلی کوچہ ، آس پڑوس کی کوئی خبر گیری نہیں شہر جل رہے ہیں ہے ہماری اپنے ہی ملک میں شناخت چھینی جارہی ہے ملک کے چپے چپے میں مذہب کے نام پر مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے مگر ہم میں سے کوئی ان باتوں پر آواز نہیں اٹھاتا ہاں عالمی استکبار اور عالمی سطح کی بات ہوتی ہے تو پاٹ دار مضبوط آواز میں چیخ چیخ کر دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت میں گھنٹوں بولا جاتا ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ عالم نما افراد کی جہالت اور حقیقی علماء کی غفلت اہم اور مہم عدم تشخیص کسی لائحہ کا نہ ہونا عدم اتحاد اور بعض کی سستی شہرت اور مقام و مرتبہ کی چاہت اور عیش و عشرت کی عادت نے انہیں کھوکلا کردیا ہے انہی کمزوریوں کو دیکھ کر اسلام دشمن یا خود غرض سیاستمدار اور دولت کے نشہ میں دھت صاحب ثروت اور مذہبی تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے سربراہ سبھی ایسے علماء کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں ۔ وہ کبھی کسی کمیٹی کا انہیں صدر و نائب صدر یا رکن چن لیتے ہیں تاکہ اپنے مشروع یا نا مشروع کاموں پر ان چہروں کی وجہ سے عوام کی پوچھ گوج سے بچیں رہیں اس کے بعد ووٹ جائے وقف جائے کی جائیدادیں جائے مساجد گرائی جائیں امامباڑے تباہ ہوں اب ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا یا کسی عمل خیر کے نام سے مومنین سے جمع کیا گیا پیسہ ہڑپ لیا جائے ان تمام کاموں میں علما کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات عوام میں لوگوں کا اعتبار حاصل کرنے کیلئے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی نشستوں میں انہیں عمامہ عبا اور قبا کے ساتھ بٹھا کر زینت مجلس بنادیتے ہیں۔ دشمن کی سازش کہیے یا اپنی نادانی جہاں تک ہوسکے ہمیں گروہ در گروہ بانٹا جارہا ہے اب ہر ایک کی اپنی ایک طرز فکر اور ہر ایک کا اپنا طریقہ کار اور ہر کوئی دوسرے کو رقیب سمجھ رہا ہے کوئی کسی دوسرے کی حوصلہ افزائی یا مدد نہیں کرتا ہر ایک کو دوسرے کا کام بیہودہ لگتا ہے۔ان سب باتوں نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہے اور کسی آلہ کار سے اس سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔

حضرت امام حسین کے ساتھ”علیہ السلام”لکھنا

علامہ سید علی حیدر نقوی طاب ثراہ
مدیر اول ماہنامہ اصلاح

۔۔۔۔مولوی صاحب:
تم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ’’علیہ السلام‘‘ کیوں کہتی ہو؟یہ تو خاص پیغمبروں کے لئے بولاجاتا ہے۔ سوائے انبیاء و مرسلین کے اور کسی کے نام کے ساتھ’ علیہ السلام‘ نہیں بولنا چاہئیے۔جس طرح صحابہ کو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی کہا کرو۔
حسینی بیگم:
اگر شوہر کی حیثیت سے حکم دیتے ہو تو خیر۔ لیکن اگر قاعدے سے پوچھتےہو تو میں نے صحیح کہا ہے حضرت امام حسینؑ کو علیہ السلام بھی کہہ سکتے ہیں اور بڑے بڑے علماء لکھتے رہے ہیں۔
مولوی صاحب:
مگر یہ بتاؤ کہ وہ بڑے بڑے علماء کون ہیں جنھوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی علیہ السلام کہا یا لکھا ہو۔ہر گز کسی عالم نے یہ بدعت نہیں کی ہوگی۔
حسینی بیگم:
میں کیا بتاؤں سیکڑوں کتابوں میں ہے۔ چند کتابوں کا نام لیتی ہوں بلکہ ان کی عبارتیں بھی سنائے دیتی ہوں۔ شمس العلماء جناب مولوی شبلی صاحب نعمانی کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ قسطنطنیہ میں محرم کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’یہاں کا محرم بھی ایک قابل ذکر چیز ہے۔محرم کے زمانے میں دھوم دھام کی مجلسیں اور نوحہ و بُکا کا ہنگامہ زیادہ تر یہیں ہوتا ہے۔ مجلسوں میںیہاں سوز اور تحت لفظ کا دستور نہیں ہے صرف حدیث خوانی ہوتی ہے اور در حقیقت مجلس عزا کا مقصود بھی یہی ہے۔ عام طریقہ یہاں کا یہ ہے کہ اول منبر کے قریب ایک شخص کھڑے ہو کر جناب امیر علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب کے اشعار پڑھتا ہے‘‘۔(سفر نامہ روم و مصر و شام صفحہ ۱۲۰)
مصر کے متعلق لکھتے ہیں: ’’مزارات اور مشاہد بھی کثرت سے ہیں اور ان کے مصارف کے لئے بہت سے اوقاف ہیں۔ حضرت زینبؑ (امام حسین علیہ السلام کی بہن)حضرت امّ کلثوم،امام شافعیؓ، امام لیثؓ کے مقبرے بڑی شان و شوکت کے ہیں‘‘(سفرنامۂ مذکور صفحہ ۲۰۷)
موصوف دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:’’حضرت علی علیہ السلام کے عہد میں امیر معاویہ نے ہمسری کا دعویٰ کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے مصلحۃً خلافت سے ہاتھ اُٹھا لیا۔ حضرت حسین علیہ السلام کے جانکاہ واقعہ کو ہم دُہرانا نہیں چاہتے ‘‘(المامون صفحہ۱۳)۔اور بڑے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں لکھتے ہیں:’’عبد اللہ بن عباس نے حسین علیہ السلام کی رکاب تھامی تھی‘‘(المامون صفحہ ۲۰۸)۔
یہی مولوی صاحب ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں:’’اسی سال (۴ ؁ ہجری)شعبان میں امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی‘‘(سیرۃ النبی جلد اول صفحہ ۲۸۷)۔اور ۹ ؁ ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ (و آلہ)و سلم حضرت فاطمہ زہرا اور امام حسن و حسین علیہم السلام کو لے کر مباہلے کے لئے نکلے‘‘(سیرۃ النبیؐ جلد ۲ صفحہ ۳۹)ایک اور جگہ لکھا ہے:حضرت زینب اور امام حسن امام حسین علیہما السلام اور ام کلثوم اہم واقعات کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں مشہور ہیں‘‘۔(سیرۃ النبی جلد ۲ صفحہ ۳۴۲)
اور کچھ زمانہ قبل ایک مشہور عالم جناب مولوی احتشام الدین صاحب مراد آبادی گزرے ہیں جنھوں نے شیعوں کی مخالفت میں ایک بڑی کتاب لکھی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:’’جناب امام حسین علیہ السلام کی ذات مبارک میں‘‘(نصیحۃ الشیعہ جلد ۱ صفحہ ۴۴)’’آخر کو حسین علیہ السلام امت رسولؐ کے ہاتھ سے قتل ہو گئے‘‘(صفحہ ۴۸)’’شہادت حسین علیہ السلام کے واقعات میں سب سے پہلاامر جو باسباب ظاہر باعث اس حادثہ کا ہوا تھا کہ امام علیہ السلام نے بیعت یزید گوارا نہ کی۔(صفحہ ۱۴۹)
اسی طرح سیکڑوں جگہ اس کتاب میں بھی حضرت کو علیہ السلام لکھا ہے۔ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری بھی اخبار اہلحدیث امر تسر میں برابر امام حسین علیہ السلام لکھتے ہیں۔ اور حضرات اہل حدیث کے پیشوائے اعظم جناب مولوی وحید الزماں صاحب حیدرآبادی لکھتےہیں:’’امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بھی وہیں تھے‘‘۔(انوار اللغۃ پارہ ۶ ص ۷۶)وہ شخص ملعون ہے جو کسی گھاٹ کا پانی روکے یعنی جہاں لوگ پانی پیتے ہوں ان کو نہ پینے دے۔ ایسی حالت میں جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھی اور اطفال خورد سال کو فرات کے پانی سے روکا، ان کے ملعون ہونے میں بموجب نص حدیث کیا شک رہا‘‘(انوار اللغۃ پارہ ۱۳ ص ۳۶)’’بر خلاف معاویہ کے وہ مرتے دم تک اہلبیت علیہم السلام کے دشمن اور مخالف رہے اور حضرت علی علیہ السلام کو گالیاں دینے کے لئے تمام خطیبوں کو حکم دیا اور اپنی آخری عمر میں مکر و فریب اور پولیٹکل چالوں سے یزید کے سے نالائق فرزند کو خلیفہ بنایا حالانکہ امام حسین علیہ السلام کے موجود ہوتے ہوئے یزید ان کے پاخانہ کا لوٹا اٹھانے کے بھی لائق نہ تھا‘‘(انوار اللغۃ پارہ ۱۴ ص ۱۰)
اور جناب جامع معقول و منقول ابوالاحسان مولوی عبد الحق صاحب سہارنپوری نے لکھا ہے: ’’سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام‘‘ (تصدیق شہادت مطبوعہ میرٹھ ۱۳۲۳؁ ہجری ص ۳)’’امام حسین علیہ السلام (تصدیق شہادت ص ۶ و ۱۲ و ۱۳ و ۲۶ و ۳۲و ۲ ۳۶و ۵۴و ۶۳و ۷۱)
اور جناب شیخ المشائخ تاج العلماء مولوی محمد سلیمان صاحب ساکن پھلواری ضلع پٹنہ جو زمانہ حال کے بہت بڑے امام اہل سنت ہیں تحریر فرماتے ہیں:’’سید الشہداء امام حسین علیہ السلام‘‘(رسالہ غم حسین مطبوعہ لکھنؤ ص ۳ و ۴ و ۱۴،۱۵و ۲۱ و ۴۵و ۵۲و ۵۵و ۵۷و ۶۳و ۷۱و ۷۲و ۷۶تاآخر کتاب)مولانا ممدوح اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:’’حضرت سید الشہداء امام ہمام سیدنا و مولانا امام حسین علی بعدہ و علیہ الصّلوٰۃ والسلام(رسالہ شہادت حسین ٹیٹل ص ۱ و ۲ ،آخر کتاب)
مولوی صاحب:
یہ سب تو اردو کتابوں کا استعمال ہے۔ فارسی اور عربی کتابوں میں تم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ’’علیہ السلام‘‘کا استعمال نہیں دکھا سکتی ہو۔
حسینی بیگم:
بہت اچھا سنیئے جناب شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی کو تو خوب جانتے ہو جو دہلی کے بہت بڑے عالم اور پیشوائے اہل سنت تھے اور انھوں نے شیعوں کے خلاف مشہور کتاب تحفہ اثنا عشری لکھی تھی ان مولوی صاحب کے شاگرد رشید جناب مولوی شاہ سلامت اللہ صاحب لکھتے ہیں:’’حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السلام (تحریر الشہادتین ص ۱۶ و ۲۹) حسنین علیہما السلام ( ص ۲۱ و ۲۵ و ۲۶)جناب امام حسین علیہ السلام (ص ۳۴و ۴۱و ۴۵و ۴۶و ۴۸)۔غرض پوری کتاب میں سیکڑوں جگہ ہے۔
اور جناب علامہ شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:’’در موضع قبور امام حسن زین العابدین و محمد باقر و جعفر صادق سلام اللہ علیہم اجمعین سنگے یافتند بروے نوشتہ قبر فاطمہ بنت رسولؐ اللہ سیدۃ النساء العالمین و قبر الحسن بن علی و علی بن الحسین بن علی و جعفر بن محمد علیہم التحیۃ والسلام’’۔
یعنی ’’امام حسن و زین العابدین و محمد باقر و جعفر صادق علیہم السلام کی قبروں کی جگہ ایک پتھر پایا گیا جس پر لکھا تھا کہ یہ قبر ہے جناب فاطمہ دختر رسول اللہ و سیدۃ نساء العالمین اور قبر ہے حضرت حسن بن علی و علی بن حسین و محمد باقر جعفر بن محمد علیہم التحیۃ والسلام کی‘‘(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص۵۴۵)
اور جناب مولوی صدر الدین صاحب بوہاری نے بھی لکھا ہے: حسین بن علی علیہما السلام شنید ۔یعنی حضرت حسین بن علی علیہما السلام نے سُنا(روائح المصطفےٰ ص۵۹)۔اور جناب مولوی محمد مبین صاحب فرنگی محلی نے بھی اپنی کتابوں میں ہزاروں جگہ حضرت کو علیہ السلام لکھا ہے (کتاب وسیلۃ النجاۃ مطبوعہ لکھنؤ)
اور جناب شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی نے بھی اپنی کتابوں میں کئی جگہ لکھا ہے۔ جیسے: ’’حضرت امام حسین علیہ السلام بنابردعوی خلافت راشدہ‘‘۔(فتاوےٰ عزیزی جلد ۱ ص ۲۱)۔مکتوب در حال ہمراہیان حضرت امام حسین علیہ السلام۔ ’’یعنی امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے حالات میں یہ تحریر ہے(فتاویٰ عزیزی جلد ۱ ص ۸۴)۔بیان جواز علیہ السلام گفتن بہ علی مرتضی و سیدۃ النساء و حسنین رضی اللہ عنھم یعنی اس بات کے بیان میں کہ جناب علی مرتضیٰ و سیدۃ النساء اور امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھم کو ’’علیہ السلام‘‘کہنا جائز ہے(فتاویٰ عزیزی جلد ۱ ص ۲۳۴)جناب شاہ صاحب نے اپنی مشہور کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں بھی ان حضرات کو بہت سی جگہوں میں علیہ السلام اور علیہم السلام لکھا ہے۔ کہو اب تم مانے یا میں اور ثبوت پیش کروں؟
مولوی صاحب:
واقعاً بڑی حیرت کی بات ہے کیسے اتنے بڑے علماء و محدثین نے ان لوگوں کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ لکھ دیا جو پیغمبروں کے سوا کسی کے لئے بولنا ہی نہیں چاہئیے۔
حسینی بیگم:
تم جناب مولوی صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی کو تو جانتے ہوگے؟
مولوی صاحب:
ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ ہماری جماعت اہل حدیث کے بہت بڑے عالم اور نہایت زبردست پیشوا تھے۔ ان کے برابر تو اس زمانہ میں کوئی عالم ہوا ہی نہیں۔ اس کثرت سے کتابیں انھوں نے لکھیں کہ ہندوستان کا کیاذکر ہے عرب شام مصر میں تمام پھیل گئیں۔
حسینی بیگم:
ذرا دیکھو تو یہ کون سی کتاب ہے؟
مولوی صاحب:
یہ تو صاف لکھا ہے حجج الکرامہ فی آثار الکرامہ۔
حسینی بیگم:
ہاں اور یہ کس کی تصنیف ہے؟
مولوی صاحب:یہ بھی صاف لکھا ہوا ہے از تالیف سید سند۔محدث مستند۔ مفسر معتمد۔ ناشر آثار محمد یہ ناصر اخبار احمدیہ عالی خطاب، عالی القاب نواب دالا،امیر الملک سید محمد صدیق حسن خاں صاحب بہادر ۔
حسینی بیگم:
اور یہ کہاں چھپی ہے؟
مولوی صاحب:
یہ بھی بالکل واضح ہے۔ در مطبع شاہجہانی واقع بلدہ بھوپال۔
حسینی بیگم:
اب مہربانی کرکے ذرا اس کے ص ۱۷۹ سطر ۸ سے پڑھ کر مجھے سناؤ تو۔
مولوی صاحب:
ہائے اللہ میں نے کتنی جھوٹی قسمیں کھائیں کہ مولانا صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام حسینؑ کو ’’علیہ السلام‘‘ کبھی نہیں لکھا ہوگا مگر تم نے ان کی کتاب ہی دکھا دی اس میں تو تمام لکھا ہے: ’’حسین علیہ السلام برادر وے‘‘ (سطر۸)۔’’حسین علیہ السلام از عائشہ پرسید‘‘ (سطر ۱۷)۔ ’’حسین علیہ السلام باہمراہیان خود سلاح پوشید‘‘ (سطر۱۹)۔’’ابوہریرہ بحسین علیہ السلام گفت‘‘ (س۲۰)۔ ’’حسین علیہ السلام نشنیند‘‘ (ص۱۸۰سطر۲۲)۔اسی طرح سیکڑوں جگہ لکھا ہے۔ تو کیا کسی عربی کتاب میں بھی حضرت حسین کو علیہ السلام لکھا ہے۔
حسینی بیگم:
دیکھو:
(۱)جناب علامہ محمد بن عقیل نے اپنی کتاب میں کئی جگہ حضرت کو علیہ السلام لکھا ہے مثلاً ھٰذا نص کتاب الحسین بن علی علیھما السلام یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام کے خط کی یہ نقل ہے (نصائح کافیہ مطبوعہ بمبئی ص۴۲)فکان اول من لقیہ الحسین بن علی علیھما السلام یعنی سب سے پہلے اس سے امام حسین علیہ السلام ملے(نصائح ص۴۶)بن زیاد کتب الی عمرو بن سعید بن العاص و ھو اول علی المدینۃ الشریفۃ یبشرہ بقتل الحسین علیہ السلام یعنی ابن زیاد نے مدینہ کے حاکم عمرو بن سعید بن العاص کو امام حسین علیہ السلام کے قتل کی خوشخبری لکھ بھیجی (نصائح ص۵۰)اسی طرح تمام کتاب میں ہے ۔
(۲)علامہ سبط ابن جوزی نے بھی سیکڑوں جگہ حسین علیہ السلام لکھا ہے مثلاً: الباب التاسع فی ذکر الحسین علیہ السلام یعنی نواں باب امام حسین علیہ السلام کے بیان میں(تذکرہ خواص الامہ مطبوعہ ایران ص ۱۳۳)ذکر وصول الحسین علیہ السلام الی العراق یعنی امام حسین علیہ السلام کے عراق پہنچنے کے بیان میں (تذکرہ ص ۱۴۰)اسی طرح بہت ہے ۔
(۳)بہت بڑے پیشوا جناب شیخ عبد الحق صاحب نے جو محدث دہلوی مشہور ہیں لکھا ہے:ذکر مقتل سیدنا الام الشھید السعید سبط رسول اللہ الامام ابی عبد اللہ الحسین علیہ السلام علیہ و علیٰ اٰبائہ الکرام۔یعنی ہمارے سردار امام شہید سعید رسولؐ خدا کے نواسے امام ابو عبد اللہ حسین علیہ السلام کی شہادت کا بیان (کتاب ما ثبت بالسنۃ ص۱۰)
(۴)جناب شاہ عبد العزیز صاحب نے بھی اپنی عربی کتاب میں کئی جگہ لکھا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ہے: فاستناب الحسنین علیھم السلام من احدھما یعنی خدا نے حضرت امام حسن و حسین علیھما السلام کو حضرت رسولؐ خدا کا قائم مقام بنا دیا (سر الشہادتین در تحریر الشہادتین ص ۱۶)و کتبوا الی الحسین علیہ السلام یعنی کوفہ والوں نے امام حسین علیہ السلام کو لکھا (ص۳۸)ثم وجہ ذریۃ الحسین و راسہ مع علی ابن الحسین علیھما السلام الی المدینۃ یعنی یزید نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر اور آپ کے اہلبیتؑ کو امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ مدینہ روانہ کر دیا (ص۱۷)۔یہ کتاب سر الشہادتین ایسی عظیم الشان ہے کہ آپ کے امام اور علامہ جناب مولانا نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی نے اس کےبارے میں لکھا ہے:’’گویم اصح توالیف دریں باب رسالہ سر الشہادتین تالیف شاہ عبد العزیز محدث دہلوی است۔ یعنی شہادت امام حسین علیہ السلام کے بیان میں سب سے زیادہ صحیح کتاب سر الشہادتین جو جناب شاہ عبد العزیز صاحب کی تصنیف سے ہے۔(حجج الکرامہ ص ۱۷۹)
(۵)علامۃ ابن الطفطقی نے بھی اپنی کتاب میںبرابر حسین علیہ السلام لکھا ہے،مثلاً: فنبدأ یقتل الحسین علیہ السلام یعنی ہم شہادت امام حسین علیہ السلام کا بیان شروع کرتے ہیں۔(تاریخ فخری ص ۸۴ وغیرہ)
(۶)بڑے مشہور مؤرخ علامہ مقریزی لکھتے ہیں: بالنیاحہ والبکاء علی الحسین علیہ السلام یعنی امام حسین علیہ السلام پر نوحہ و بکا کرتے ہوئے (کتاب الخطط مطبوعہ مصر جلد ۲ ص ۳۸۹)۔سکینہ بنت الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام یعنی سکینہ جو دختر تھیں امام حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام کی (الخطط جلد ۳ ص ۳۳۳)۔
سب سے زیادہ حیرت خیزبات یہ ہے کہ خاص دمشق ملک شام کے علماء بھی جو خلفاء بنی امیہ کا پایۂ تخت تھا حضرت امام حسین کو ’’علیہ السلام‘‘ لکھتے ہیں۔ چنانچہ علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقی جنھوں نے مسجدوں کی بدعتوں کو مٹانے کے لئے ایک کتاب لکھی ہے۔ لکھتے ہیں: لغی الامام الشھید الحسین علیہ السلام علی المنبر فی جمعہ عاشوراء یعنی جمعہ عاشوراء میں منبروں پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا بیان کرنا۔(کتاب اصلاح المساجد من البدع والعوائد مطبوعہ مصر ص ۱۸۲)
(۸)علامہ ابو الفرج جو خاص بنی امیہ کے خاندان سے تھے انھوں نے اپنی کتابوں میں سیکڑوں جگہ امام حسین علیہ السلام لکھا ہے جیسے: بعد قتل الحسین علیہ السلام یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد۔ زوجھا الحسین علیہ السلام یعنی ان کے شوہر امام حسین علیہ السلام تھے۔بنت الحسین علیہ السلام یعنی امام حسین علیہ السلام کی بیٹی۔(دیکھو کتاب الاغانی مطبوعہ مصر جلد ۱۴ ص ۶۳ تا آخر)
(۹)علامہ مسعودی بھی لکھتے ہیں: ذکر مقتل الحسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام یعنی حضرت حسین علیہ السلام کی شہادت کا بیان (مروج الذہب بر حاشیہ تاریخ کامل مطبوعہ مصر جلد ۶ ص ۱۳۹)
یہی علامہ یہ بھی لکھتے ہیں: فی حرب الحسین علیہ السلام یعنی امام حسین علیہ السلام کی لڑائی میں(مروج الذیب جلد ۶ ص ۱۴۲)
تاریخ طبری میں سکیڑوں جگہ علیہ السلام لکھا ہے مثلاً :وجہ اہل الکوفۃ الرسل الی الحسین علیہ السلام یعنی کوفہ والوں نے بہ کثرت قاصدوں کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا (تاریخ طبری مطبوعہ مصر جلد ۶ ص ۱۹۴)۔ فی ھذہ السنۃ کان خروج الحسین علیہ السلام من مکۃ یعنی اسی سال میں امام حسین علیہ السلام مکہ سے نکلے۔(جلد ۶ ص ۲۱۵)فبعث عمر بن سعد الی الحسین علیہ السلام یعنی عمر بن سعد نے امام حسین علیہ السلام کے پاس پیغام بھیجا (جلد ۶ ص ۲۳۳)اسماء من قتل من بنی ھاشم مع الحسین علیہ السلام یعنی بنی ہاشم کے جو لوگ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہید ہوئے ان کی فہرست (جلد ۶ ص ۲۶۹)اسی طرح سکیڑوں مرتبہ لکھا ہے۔
علامہ ابو حنیفہ دینوری کی کتاب کا نام ’’اخبار الطوال‘‘ہے۔اپنی اسی کتاب میں کئی جگہ حضرت کو حسین علیہ السلام لکھا ہے مثلاً خرج الحسین بن علی علیہ السلام من مکۃ فی ذلک الیوم یعنی امام حسین علیہ السلام اسی روز مکہ سے روانہ ہوئے(اخبار الطوال مطبوعہ مصر ص۲۲۳)
اسی صفحہ میں یہ بھی ہے: لما ورد کتاب مسلم بن عقیل علی الحسین علیہ السلام یعنی جب مسلم بن عقیل کا خط امام حسین علیہ السلام کو ملا(ص۲۴۳)پھر ہے قال الحسین علیہ السلام یعنی امام حسین علیہ السلام نے کہا (ص۲۴۴)اسی طرح بہت سی جگہوں میں ہے
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امام حسین کو ’’علیہ السلام‘‘ بولنے اور لکھنے کا دستور شروع ہی سے اسلام میں جاری ہے۔
اور خدا نے بھی قرآن مجید میں ان حضرات پر سلام کیا ہے اگر چہ نام نہیں لیا ہے۔
مولوی صاحب:
وہ کہاں ہے؟بے شک سب سے زیادہ تعجب خیز ہے۔
حسینی بیگم:
یہ بتاؤ کہ قرآن مجید میں خدا نے یٰس کس کو کہا ہے؟
مولوی صاحب:
حضرت رسول خداؐ کو ۔
حسینی بیگم:
تو پارہ۲۳ سورۂ والصافات رکوع ۴ میں خدا نے فرمایا ہے:سلامٌ علیٰ اٰل یاسین۔ یعنی آل یاسین پر سلام ہو۔
مولوی صاحب:
واہ وہ تو سلام ٌ علیٰ اِل یاسین ہے۔ سب قرآنوں میں یونہی موجود ہے (یعنی الیاس پر سلام ہو) دیکھو شمس العلماء مولوی حافظ ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی کا ترجمہ کیا ہوا قرآن مجید اس کے پارہ ۲۳ رکوع ۴؍۸ میں صاف لکھا ہے: سلامٌ علیٰ اِل یاسین اور اس کا ترجمہ یوں کیا ہے: اِل یاسین( یعنی الیاس) پر سلام اور اس ترجمہ پر یہ فائدہ بھی لکھا ہے۔ الیاس اور آل یاسین دونوں نام تھے۔ یہاں رعایت سجع کے لحاظ سے اِل یاسین فرمایا‘‘۔(حمائل مترجم ڈپٹی نذیر احمد صاحب مطبوعہ لکھنؤ ۷۲۱؎) اسی طرح اور کل قرآنوں میں بھی اِل یاسین ہی لکھا ہے۔ تم نے آل یاسین خوب کہی۔
حسینی بیگم:
تم ان لوگوں کی بات مانوگے یا علامہ جلال الدین سیوطی و علامۂ فخر الدین رازی ایسے حضرات کی؟
مولوی صاحب:
ان لوگوں کا کیا کہنا۔ وہی تو مذہب اسلام کے ارکان اور علم و فضل کے آسمان ہیں۔
حسینی بیگم:
اب دیکھو وہ کیا لکھتے ہیں۔سلام علیٰ اٰل یاسین(تفسیر در منثور مصر جلد ۵ ۲۸۵؎)سلام علیٰ اٰل یاسین۔(تفسیر کبیر جلد ۷ ۱۶۱؎)اور نواب صدیق حسن خاں صاحب نے بھی سلام علیٰ اٰل یاسین۔ہی لکھا ہے(تفسیر فتح البیان مطبوعہ مصر جلد ۸ ۷۷؎)اور بھی بے حساب تفسیروں میں آل یاسین ہے۔ ان سب کا مطلب بھی آل محمدؐ لکھا ہے۔ جیسے علامۂ ابن کثیر لکھتے ہیں: قرء اٰخرون سلام علیٰ اٰل یاسین و ھی قرأۃ ابن مسعود رضی اللہ عنہ و قال اٰخرون سلام علی اٰل یاسین یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم یعنی دوسرے لوگوں نے سلام علی اٰل یاسین پڑھا ہے۔ اور یہی قرأت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بھی ہے اور دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ سلام علی اٰل یاسین ہے یعنی آل محمدؐ پر خدا کا سلام ہو ( تفسیر ابن کثیر مطبوعہ مصر جلد ۸ ۲۰۳؎)
اور علامۂ سیوطی نے لکھا ہے کہ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آل یاسین سے مراد آل محمد ہیں(تفسیر در منثور جلد ۵ ۲۸۶؎)
اور علامہ فخر الدین رازی نے لکھا ہے آل یاسین آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم یعنی آل یاسین حضرت محمدؐ کی آل ہیں۔(تفسیر کبیر جلد ۷ ۱۶۳؎)
اور جناب مولانا صدیق خاں صاحب نے لکھا ہے المراد باٰل یاسین اٰل محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم یعنی آل یاسین سے مراد آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں(تفسیر فتح البیان جلد ۸ ۷۷؎)
اور حدیث کی بہت سی کتابوں میں بھی یہی مضمون ہے دیکھو علامہ ابوبکر کی کتاب رشفۃ الصادی مطبوعہ مصر ۲۴؎،علامہ ابن حجر کی صواعق محرقہ مطبوعہ مصر ۸۸؎ وغیرہ جو سیکڑوں ہیں کہاں تک سنو گے۔
مولوی صاحب:
واقعاً تم نے اچھی طرح ثابت کر دیا کہ حضرت حسین کو علیہ السلام کہنا خدا و رسولؐ کا فعل ہے اور ہمارے مذہب کے بڑے بڑے علماء نے برابر اس طرح لکھا ہے اور میرے ہر شعبے کا تم نے اطمینان بخش جواب دے دیا۔ میں بڑی غلطی میں پڑا تھا جس سے تم نے نکال دیا۔
(تفصیل کے لیے ادارہ اصلاح لکھنؤ کی شائع شدہ کتاب ’’تصویر عزا‘‘ پڑھیے )

اف رے وہ مظلومیت کربلا

مولانا سید محمد جابر جوراسی صاحب قبلہ
مدیر ماہنامہ اصلاح، لکھنؤ

ظالم و ظالموں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں اور مظلوموں اور مظلومیتوں کے بھی درجات واقسام ہوتے ہیں۔ظلم کی تعریف ہے : وضع الشی فی غیر محلہ۔ کسی چیز کو نا مناسب مقام پر رکھ دیناظلم ہے۔ظلم کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ آپ کسی قیمتی چیز کو اِدھر اُدھر ڈال دیں۔یا کسی نادر چیزکو غیر محفوظ جگہ پر رکھ دیں یہ بھی ایک ظلم ہے ۔ اور اگر کوئی تانا شاہ بمباری کرکے بستیوں کو ایسا اجاڑ دے کہ صدیوں تک اس کے اثرات ظاہر ہوتے رہیںجیسے ناگاساکی ، اور ہیرو شیما میں ہوایہ بھی ظلم ہے لیکن بہت بڑا ظلم۔ اسی طرح یہ بھی ظلم ہےکہ اگر کوئی ایسا تباہ کن وائرس تیار کرے کہ جو پوری دنیا کی ایک بڑی آبادی کو موت کے دہانے پر پہنچا دےتو یہ ایک ناقابل فراموش ظلم ہے۔ ظلم وہ بھی ہے کہ جس کی کسی ظالم نے بنیاد ڈالی ہو،۔ اور دوسرے ظالمین اسی روش پر چل پڑے ہوں۔
اسی لئے زیارتِ عاشورا میں امام محمد باقر علیہ السلام سے یہ ماثورہ فقرہ وارد ہے :
اللهم العن اول ظالم ظلم حق محمد وال محمد واخر تابع له على ذلك اللهم العن العصابة التي جاهدت الحسين وشايعت وبايعت وتابعت على قتله اللهم العنهم جميعا….
(مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمیؒ)
’’خدایا لعنت کر اس پر کہ جس نے محمد و آل محمد علیہم السلام کے حق پر سب سے پہلے ظلم کیا ( یعنی اُسے غصب کیا) اور اُس پر جس نے ظلم میں پہلے کی اتباع کی ۔ خدایا اس گروہ پر لعنت کر جس نے امام حسینؑ سے جنگ کی جس نے جنگ پر اس سے اتفاق کرلیا اور قتل حسینؑ پرظالموں کی بیعت کرلی۔ خدایا ان سب پر لعنت کر‘‘۔
اور اس روش پر چلنے والوں پربھی لعنت ہو۔ اگر تاریخ کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو اسی روش پر چلتےہوئے کربلا جیسا عدیم النظیر واقعہ عالم وجود میں آجاتا ہے۔ ؛جس پر انسانیت رہتی دنیا تک اشک افشانی کرتی رہے گی۔ اس تاریخِ کربلا کا بنیادی عنصر ہے تحفظِ دین و شریعت ۔
چنانچہ شاعر(شیخ محسن ابوالحب بغدادی الملقب الکبیر، متوفی ۱۳۰۵ھ) نے امام حسین علیہ السلام کے جذبے کی ترجمانی اس طرح کی ہے :
اِن كان دين محمد لم يستقم
الابقتلي فيا سيوف خذيني
اگر دینِ محمد ؐ میرے قتل کے بغیر مضبوط و پائیدار نہیں ہوسکتا تو اے تلوارو! آگے بڑھو ! اور مجھے اپنی باڑھ پر لے لو۔خود سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی جناب محمد حنفیہ پر اپنی ہجرت کے اسباب کو ان مکتوبی الفاظ میں واضح کردیا تھا:
’’وَ أَنِّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِی أُمَّةِ جَدِّی ﷺ أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّی وَ أَبِي‏ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ علیہ السلام۔‘‘
(بحارالانوار، ج 44، ص 330)
ترجمہ:
(میرا قیام شر و طغیانی فساد وظلم کے لئے نہیں ہے، بلکہ میں نکلا اس لئے ہوں تاکہ اپنے جد (رسول اللہﷺ)کی امت کی اصلاح کروں۔ میرا ارادہ ہے فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ادا کروں۔اور میری روش اپنے جد ( رسول اللہﷺ) اور پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت کے مطابق ہو۔
امام حسین علیہ السلام سفر کے اختتام پر خطۂ زمین کربلا پر پہنچے۔ اسی سرزمینِ کربلا پر ظلم کی عالمی بڑی علامت یزیدیت نے ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کردیںاس کے مد مقابل سالار شہیداں امام حسین علیہ السلام نے مظلومیت اور صبر و استقامت کی ایسی لاثانی تاریخ رقم کردی کہ جسے صفحۂ تاریخ سے رہتی دنیا تک مٹایا نہیں جاسکتا۔
مظلومِ کربلا کسی ذاتی فائدے کےلئے نہیں اُٹھے تھے بلکہ عبارات بالاسے ظاہر ہے کہ آپ ؑ نے بقائے دین اور اصلاح امت کےلئے اقدام فرمایا اورپھر بھرا ہوا کنبہ مع اپنی جان کے بارگاہِ معبود میں نثار کردیا۔ فطری اور نفسیاتی چیز ہے کہ ایسے سخت ترین وقت پر اپنے یاد آتے ہیں اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے اپنے وصی و فرزند امام زین العابدین علیہ السلام کے ذریعہ اپنے چاہنے والوں کوبعدِ سلام ایک پیغام دیا تھا اس پیغام میں کسمپرسی و مظلومیت آشکارا ہے ۔
‎شيعتي مهما شربتم ماء عذب فاذكروني
أوسمعتم بغريب او شهيد فاندبوني
ليتكم في يوم عاشورا جميعا تنظروني
كيف استسقي لطفلي فابوا ان يرحموني
اے میرے شیعو!جب تم ٹھنڈا پانی پینا ، تومیری (شدید)پیاس کو یاد کرلینا، اور جب کسی بے دیار و شہید کا تذکرہ آئے تو میرے اوپر آنسو بہا لینا۔ کاش تم یوم عاشورا ہوتے تو یہ منظر دیکھتے کہ میں اپنے کمسن بچے(علی اصغرؑ) کےلئے کس طرح پانی مانگ رہا تھا۔ اور بے رحمی کےساتھ اس کا انکار کیا جارہا تھا۔
(مصباح کفعمی، ص۷۴۱؛ خصائص حسینیہ، شوشتری، ص۹۹)
شاید عزاداروں کو اُس کیفیت جس کا سامنا امام حسین علیہ السلام کو تھا اس کا صحیح اندازہ ابھی تک نہ ہوا ہو۔ لیکن آج جب کہ عالمی وبا کووڈ 19 نے اس طرح پوری دنیا کو جکڑ لیا ہے کہ ایام عزا بھی اس کی زد میں آتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وہ پر شکوہ مجلسیں،وہ پراژدہام جلوس ہائے عزا امسال کہاں۔لیکن پھر بھی عزادار طبی و حکومتی ہدایات کی روشنی میں چند نفوس کے اندر عزاداری کریں گے تو چاہے ذاکر مصائب پڑھے یا نہ پڑھے انہیں سو چ سوچ کر رونا آئے گا کہ اس وقت ہم وباہی کی وجہ سے سہی قلت میں ہیں اور دل کھول کر اپنے اس مظلوم و شہید آقاؑ کی عزاداری نہیں کرپارہے ہیں کہ جس نے آخری لمحات میں بھی ہمیںیاد فرمایا تھا۔ یہ عزداری میں تخفیف کسی ظلم و ستم کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف صحت و زندگی کے تحفظ کے لئے ہے پھر بھی ہمارے دل سوزاں اور قلب بریاں ہیں ۔ اب ذرا سوچئے کہ وہ مظلوم کارواں جو دین و شریعت کے تحفظ کےلئے اس بے کسی کے عالم میں تھا کہ جو اعوان و انصار کی قلت کا شکار تھا اور آخری وقت میں جب بالکل ہی یکہ و تنہا تھا تو ایک پرسوز و پُر اثر نعرےکے ذریعہ عالم انسانیت اور عالمِ دین و شریعت کے احساسات کو ٹھہوکے دے رہا تھا:
ھل من ناصرٍ ینصرنا ۔ ھل من معین یعیننا ۔وھل من مغیثٍ یغیثنا وھل دافع عن حرم رسول اللہ۔۔۔
ترجمہ :
’’کوئی مددگار ہے جو ہماری مدد کرے ، کوئی ہے ہمارا معین جو ہماری اعانت کرے، کوئی ہے فریاد سننے والا جو ہماری فریاد پر کان دھرے، کوئی ہے جو حرم رسول اللہؐ کی حفاظت کرے‘‘۔
اب جب آج اختصار کے ساتھ عزاداریٔ مظلوم کربلا کو انجام دینے پر ہم مجبور ہیں تو کربلا کی اس بے کسی و بے بسی کو اور اپنےمظلوم آقاؑ کی تنہائی کو قطعاً فراموش نہ کریںکہ جس کا سامنا انہیں تحفظِ دین و شریعت اور تحفظِ ولایت کے سلسلےمیںتھا۔ لہٰذا ولایت امیر المومنینؑ و ولایتِ اہل بیت اطہار علیہم السلام کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے پوری کوشش کرنےکی ضرورت ہے کہ جذبۂ ولایت مجروح نہ ہونے پائے اور دین پر کوئی زوال نہ آنےپائے اور شریعت بازیچۂ اطفال نہ بننے پائے۔ یہی مظلومیت کربلا کا پیغام ہے کہ جو کبھی بھی عزاداروں کے ذہنوں سے محو نہ ہونا چاہئے ۔
اس لئے کہ :
ظالموں کی کسی تدبیر کو چلنے نہ دیا
شہؑ نے قانونِ شریعت کو بدلنے نہ دیا
(اداریہ ماہنامہ اصلاح،اگست۲۰۲۰ء؛ محرم نمبر ۱۴۴۲ھ)

غرض شھادت

تحریر:ذاکر شام غریباں عمدۃ العلماء آیۃ اللہ سید کلب حسین صاحب قبلہ طاب ثراہ

جب ہجری سنہ بدلتا ہے، جب ماہ ذی الحجہ کی آخری تاریخ میں خنجر غم بن کر ہلال نوشب اول محرم میں فلک پر ضوفگن ہوتا ہے۔ جب ہر سچے شیعہ کے گھر میں ماتم کی صف بچھتی ہے۔لباس غم زیب جسم ہوتا ہے۔ ہر زن و مرد ہمہ تن مرقع غم بن کر اہل بیت ؑ رسولؐ کی محبت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جنت کے فدائی اصحاب حسین ؑ کی طرح مظلوم پرجان فدا کرنے کی تمنا میں بے چین ہونے والے کہیں علمدار لشکر حسین ؑ کی یادگار میں علم نصب کرتے ہیں کہیں زیارت قبر حسین ؑ کے مشتاق، بانس، کاغذ،لکڑی یا چاندی سونے سے شبیہ روضہ شہید کربلا بنا کے اصل سے دوررہ کر بھی شبیہ کودیکھ کر ثواب زیارت حاصل کرتے ہیں۔ذکر حسین ؑ کو ہر اس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دل نشین اور جاذب نظر ہو۔ عالم کے ہر اس انسان کے واسطے جذبات انگیز ہو، جس کے قلب کے کسی گوشہ میںبھی مظلوم سے ہمدردی کی لہریں پوشیدہ ہوں۔
انھیں افکارکا اظہارکہیں روضہ خوانی کہیں کتاب خوانی،  کہیں واقعہ خوانی اور کہیں نثر خوانی، مرثیہ اور سوز کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اب آخر میں موعظہ کے نام سے بلندی کی آخری منزل تک پہونچا۔ مذکورۂ بالا بہت سے انداز وہ ہیںجواب متروک ہیںاورشاید سیکڑوں آدمیوں کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ مجلس غم میں ان کے پیش کرنے کا طریقہ کیا تھا اپنی معلومات کی حدتک میں یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ طرزموعظہ عام ہونے سے پہلے ہر انداز ذاکری صرف فضائل و مصائب معصومین ؑ تک منحصر تھاجس میں مناظرہ کی نمکینی ذوق سماعت بڑھانے کے واسطے لازمی سمجھی جاتی تھی۔
 مگر تقریباً ایک صدی کے اندر اندر جب سے موعظہ رفتہ رفتہ ذاکری کے مختلف طرز نظر انداز کرنے لگا۔ اس وقت سے مختلف موضوع حاضرین بزم کی سماعت تک پہنچنے لگے۔(مگرقلت کے ساتھ)کثرت ایسے ہی مضامین، رعایات لفظی، خطابیات، نکات شاعرانہ کی تھی اور ہے۔ جو صلوٰۃ کے فلک شکن نعروںسے واعظ کے کلام کو عام پسند ہونے کی سند دے دیں۔ واہ واہ کے لالچ میں سننے والوں کو یہ بھی سمجھا دیا جاتا ہے کہ صرف محبت آل محمدؐ نجات کے واسطے کافی ہے۔ یہ بھی کہہ دیا جاتاہے کہ ایک اشک غم تمام جہنم کی آگ گل کر دے گا۔
ایک مجلس ماتم میں بیٹھ جانا جنت کا مستحق بنا دے گا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ  بشرطہا وشروطہا یہ چیزیں صرف اسی وقت پروانۂ جنت بنتی ہیں جب ان کے ساتھ ایمان ہو، وحدت ہو، رسالت، امامت، معاد، خدا کی عدالت اور تمام اصول دین کے صدق دل سے اقرار کے ساتھ۔ فروع دین، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ، خمس اور احکام حرام و حلال پر بھی عمل ہو۔ نماز کے واسطے سنی وشیعہ کا اتفاق ہے کہ اگر یہ عبادت قبول نہ ہوگی تو ہر عمل خیر رد ہوجائے گا۔ روزہ کے واسطے یہ اہمیت ہے کہ مومن ہو۔ بڑے سے بڑا عزادار حسین ؑ ہو،لیکن ماہ رمضان میںتیس دن بلاعذر شرعی حاکم شرع کی تنبیہ کے بعد بھی روزہ نہ رکھے تو اگر حکومت شرعی پرسرکار ہو تو اس مومن کو قتل کردو۔ حج جس پر واجب ہواوروہ امکان کے بعد بھی حج نہ کرے تو وہ آخر وقت یہودی یعنی کافر ہوکر مرے گا۔ زکوٰۃمومن کا حق ہے جو زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کو خدا ہرگز معاف نہ کرے گا،جب تک وہ مومن معاف نہ کریں جن کا حق اس نے ادا نہیںکیا۔
خمس حق سادات و امام ؑ ہے اور یقینا واجب ہونے کے بعد اپنے ہی مال میں تصرف کرنے والے بھی غاصب حق سادات اور غاصب حق امام ہیں۔ جس کے معاف کرنے سے ائمہ ؑ نے انکار فرمادیا ہے۔ جو چیزیں شرع نے حرام کی ہیں ان میں بعض ایسی بھی ہیں جن کے واسطے قرآن نے نص صریح کردی ہے کہ اگر ان کا کوئی ارتکاب کرے تو چاہے وہ مومن ہو،چاہے وہ مسلم ہو، دوستدار اہل بیت ؑ ہو یا عزادار حسین ؑمگر اس کی جزا جہنم کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ جیسے قتل مومن، زنا ٔ محصنہ کی سزا یہ ہے کہ سنگسار کرکے مارڈالا جائے۔
    ’’اور انہیں سب چیزوں کی تعلیم غرض شہادت حسین ؑ تھی۔‘‘
اگر ہمارے سید و سردارؑ کی شہادت صرف اس غرض سے ہوتی کہ رونے والا کوئی بھی ہو سیدھا جنت میں جائے۔ مجلس حسین ؑ میں بیٹھنے والا کسی مذہب کا پابند ہومگر وہ نجات کا مستحق ہے۔ دوستدار اہل بیت ؑ جیسا بھی بدکار اورتارک عبادات ہو مگر وہ ناجی ہے۔ تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کادین بچانے کے واسطے کربلا کی محیرالعقول فداکاری دنیا کے سامنے پیش کی۔ نانا نے وحدت، رسالت، معاد، صفات الٰہی،نماز، روزہ، حج وغیرہ ہر شے کی تعلیم دی اور بغیر اس علم و عمل کے جنت بھی مل جانا مشکل بتا دیا مگر امام حسین ؑ نے معاذ اللہ مثل عقیدۂ نصاریٰ، امت کے گناہوں کا فدیہ بن کر امت کو عام اجازت دے دی کہ کوئی عمل خیر نہ کرنا، کسی بدکاری سے پرہیز نہ کرنا، بس صرف میری عزاداری کرنا اور جنت تمہاری ہے۔
لا واللہ ہرگز امام حسین ؑ کی یہ تعلیم نہ تھی۔ ان کی شہادت کی غرض صرف حفاظت اسلام تھی، تعلیمات رسولؐ کی بقا تھی،لوگوں کو گمراہی سے بچا کر اصول و فروع کے صحیح راستوں پر لگانا غرض حقیقی تھی۔
ایک زمانے میں اس ہندوستان میں جو کبھی جنت نشان کہا جاتا تھا، اور اب جہنم کی تصویر ہے۔ جہاں اقتصادی تکلیفوں، لوٹ مار، عام رعایا کی بداخلاقیوں، قانون شکنیوں، حکام کی ناانصافیوں، حکومت کی غفلتوں اور بدانتظامیوں کی کڑواہٹ،گرانی کی شدت، ڈاکہ زنی، قتل وغارت، انسانی خون کی ارزانی اور پھر فرقہ پرست جماعتوں کی تبلیغی کوششوں نے ہر انسان کی زندگی موت سے بدتر بنا رکھی ہے۔ اگر ہم اپنے مذہب کوبچا سکتے ہیں تو صرف عزاداری کی بدولت مگر نہ اس صورت سے کہ نوحہ کو نوحہ کی حد سے نکال کر مدح کی نظم بنا دیں، اور اس پر ماتم کریں مصرع یہ ہو کہ علی ؑ نے خیبر فتح کرلیا اور ہم اس پر ماتم کررہے ہیں۔ نہ اس صورت سے ہم صرف شق القمر اور رجعت شمس میں باریک بینیاں کریں نہ اس صورت سے کہ سوزخوانی میں بڑے بڑے گویّوں کو مات کردیں۔ نہ اس صورت سے کہ منبرکو تبرا بازی سے بھر کر خود اپنے ہی افراد کو مجلس سے اٹھ جانے پرمجبور کردیں بلکہ اگر اس دور میں اسلام کو بچا سکتے ہیں تو صرف یہ بتا کر کہ حسین ؑ وحدت کے کتنے زبردست معتقد تھے، منازل شہادت کی وہ عظیم الشان سختیاں جن کو دنیاکاکوئی بشر برداشت نہ کر سکا صرف اس جذبے میں طے کرگئے کہ میرے خالق کا یہی حکم ہے، ہر وہ مصیبت جو انسان کے تحمل سے باہر تھی بڑی ہنسی خوشی سے صرف اس لئے انگیز کرلی کہ میرا اللہ اسی میں راضی ہے، رسولؐ کی صداقت کا ثبوت امام حسین ؑ نے ہر اس عبادت کو کربلا میں ادا کرکے دیا جن کی تعلیم خاتم النبیین ؐ نے دی تھی۔ اورجس کو اس مظلوم اور دیگر معصومین ؑ کے علاوہ کوئی کربلا کے سے حالات میں ادا نہ کرسکا، یعنی واجبات تو واجبات مستحبات بھی ترک نہ کئے جن کا تذکرہ اشاروں کنایوں میںکردینے سے بعض حضرات غالی شیعوں کی نظروں میں قابل لعن وطعن ہوگئے۔ مذہبی امور میںیک جہتی،اتحاد، خلوص،نیت، صبر،جنت و نار، حساب و کتاب، ثواب وعقاب، ہرچیز میں یقین و ایمان کی وہ منزل امام حسین ؑ واصحاب حسین ؑ نے پیش کی جس سے زائد مستحکم ایمان کسی عام انسان میں ہونا ناممکن ہے۔
آج ہندوستان میں یقیناہماری جان و مال اتنے خطرہ میں نہیں ہے جتنا ایمان خطرے میں ہے۔ اس وجہ سے کہ حکومت کامسلک لادینی ہے تو رعایا میں لامذہبیت کا اثر آنا ضروری ہے اور اس وجہ سے کہ حکومت کا مسلک لادینی سہی مگر اکثر و بیشتر ارکان حکومت کسی نہ کسی مذہب کے جذبات سے یقینا متاثر ہیں۔ جن کا اظہار کبھی نہ کبھی اورکسی نہ کسی پیرائے میں ہوجانا ناگزیر ہے اوراس لئے کہ ایک طرف بہائی مشن دوسری طرف شدھی کے فدائی مذہب بدلوا دینے پر تیار ہیں۔ اوراس میں ذرا سا بھی جھوٹ نہیں کہ گڑگائوں کے علاقہ میں بنگال کے دور افتادہ دیہات میں صوبہ ممبئی وغیرہ کے قریات میں بہت سے مسلمان اپنا دین بدل چکے ہیں۔ اور اس لئے کہ نام کے مسلمان اور محض خاندانی شیعہ یوں تعلیم نسواں کے فدائی بن گئے ہیں کہ ان کو نہ زناکاری عام ہوجانے کی شرم ہے،نہ بے پردگی کی غیرت ہے۔ نہ اغوا کے عام واقعات دیکھ کر آنکھیں کھلتی ہیں،نہ عورتوں کے غیر مذاہب کے ساتھ سول میرج کرلینے سے کان پر جوں رینگتی ہے،بالکل سچ ہے_________ الحیاء مع الایمان (اگر ایمان ہو تو شرم و حیاء بھی ہوتی ہے) اگر ایمان نہیں تو شرم و حیاکا خدا حافظ، اس کلیہ کے مطابق یہ کہنا ناگزیر ہے کہ جو بے حیائی برداشت کرنے پر خوشی خوشی آمادہ ہیں ان کا ایمان یقینا کمزور ہے۔ آپ یادرکھیں کہ بچوں کی ابتدائی اور گھریلو تربیت و تعلیم بہت زائد ہماری عورتوں کی ممنون احسان ہے۔ اوراس وجہ سے یہ قول مشہور ہے کہ ایمانداری کی زائد بقا عورتوں کے دم سے ہے،لہٰذا جب عورتیں ہی دنیوی تعلیم حاصل کرکے غیر مذاہب سے سول میرج کرکے ایمان و اسلام سے باہر ہو جائیں گی۔ تو بڑی حد تک ایمان اور اس کے ساتھ عزاداری بھی ختم ہوجائے گی، اس لئے اس زمانے میں عزاداری امام حسین ؑ میں وہ انداز اختیار کئے جانا لازم ہیں جن سے غیر مذاہب متاثر ہوں یا نہ ہوں لیکن کم از کم ہمارے ہم مذہبوں میں تعلیمات حسینی پر عمل کرنے اور ان کے نقش پا پر چلنے کا شوق پیدا ہو۔ ہماری عورتوں میں اہل بیت ؑ حسین ؑ کی طرح ایمان اور عبادت اور اطاعت خالق کا جذبہ پید اہو۔
ہماری عورتوں اور مردوں کو سمجھنا چاہئے کہ اگر ہم پر فاقہ گزر جائے، اگر ہم فقر کی حالت میں ہوں، اگر ہم کو کہیں ملازمت نہ ملے، اگر دنیا ہم کو ذلیل نگاہوں سے دیکھے جو کچھ بھی ہم پر مصیبت آئے تو ہر مصیبت کے بعد بھی ہماری تکلیفیں اسرائے اہل بیت ؑ کی تکلیفوں سے زائد کبھی برابر نہیں ہوسکتیں۔ توکیا ان مصائب پر معاذ اللہ عورات بنی ہاشم نے اپنا دین چھوڑ دیا۔ کیا عبادات الٰہی سے غافل ہوگئیں،کیا اپنی بے پردگی کو بطیب خاطر منظور کرلیا۔
جناب سکینہ ؑ جن کا سن تین یا سات برس کا تھا۔ جوان عورتوں کی حد میں نہ تھیں۔ مگر دربار یزید میں گریاں تھیں۔ یزید کے سوال پر آپ نے جواب دیا کہ وہ عورت کیوں کر نہ روئے جس کے منہ ڈھانکنے کو ذرا سا کپڑا بھی میسر نہ ہو کہ نامحرموں سے منہ چھپاسکے۔ سبق لیں شاہزادی کے ان الفاظ سے وہ جو کہتے ہیں کہ شریعت میں منہ کا پردہ لازم ہی نہیںہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری شاہزادی منہ کھلا ہونے کا شکوہ نہ کرتیں اور یزید بھی جواب دے سکتا تھا کہ منہ کھلا ہے تو غم کیوں ہے شریعت میں تو منہ کا پردہ لازم ہی نہیں ہے۔
تو کیا جناب سکینہؑ کے ان بہتے ہوئے آنسوئوں کے بعد وہ عورتیں اہل بیتؑ رسولؐ کی سچی چاہنے والی کہی جاسکتی ہیں جو بے پردہ گھومیں، سنیما جائیں، ہوٹلوں میں اغیار کے ساتھ گل چھرّے اڑائیں اور آخر اغوا اور سول میرج کے عذاب میں پھنسیں،اور کیا وہ مرد سچے حسین ؑ کے شیعہ ہوسکتے ہیں جو ان تمام بے حیائیوں کو بہ خوشی برداشت کریں، نہ خدا کو پہچانیں،نہ رسولؐ کو مانیں، نہ نماز پڑھیں نہ روزہ رکھیں نہ عذاب و ثواب کی فکر کریں۔ اور کیا وہ دولت مند سچے مومن کہے جاسکتے ہیں جو فروع دین کے ہر جز سے آزاد ہوں نہ حج کریں، نہ خمس دیں، نہ زکوۃ ادا کریں اور پھر دوست دار اہل بیت ؑ ہونے کے مدعی ہوں۔
’’ایں خیال است و محال ست وجنون

نقل از
http://majliseulamaehind.org

ماہ محرم اور اردو زبان

علی رضا عابدی

یہ سنہ ساٹھ اکسٹھ کی بات ہے، میں روزنامہ جنگ ،راولپنڈی سے وابستہ تھا۔ شوکت تھانوی مرحوم ہمارے ایڈیٹر تھے۔ دفتر کے لڑکے کبھی کبھی انہیں گھیر لیا کرتے تھے اور ان سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے شوکت تھانوی صاحب سے پوچھا کہ اپنی اردو کیسے بہتر بنائیں۔شوکت صاحب تو لکھنؤ کی دھلی دھلائی ، پاک و پاکیزہ اردو کے صاحب قلم تھے(حالانکہ ہمیشہ سے بے حد باریک نوک والی پنسل سے لکھا کرتے تھے)جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنی اردو زبان کیسے بہتر بنائیں تو انہوں نے ایک فقرے میں ساری بات کہہ دی۔ بولے کہ میر انیس کے مرثیے پڑھا کرو۔سچ پوچھئے تو ہم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیے اور نجم آفندی کی نوحے رچے بسے تھے۔میں چھوٹا سا لڑکا تھا اور ہر مجلس میں مجھ سے رباعیاں پڑھوائی جاتی تھیں۔ گھر میں خواتین کی مجلسیں ہوتی تھیں جن میں میری والدہ حدیث پڑھتی تھیں اور بہنیں مرثیہ خوانی کرتی تھیں۔یہ سب ہمارے کانوں میں پڑتا رہتا تھا۔ میرے شہر روڑکی کے چھوٹے سے مگر پرانے امام باڑے میں ذاکر آتے تھے جو تقریر کیا کرتے تھے۔ کچھ سمجھ میں آتی تھی، کچھ نہیں آتی تھی مگر اسے سننا ہمارے فرض میں شامل تھا۔یہ تو ہوئی زبان کی تربیت جو بہت ہی کم سنی میں شروع ہوجاتی تھی۔اس کے علاوہ محرم اور عزاداری سے لگی ایک تہذیب بھی تھی۔ وہ رکھ رکھاؤ، وہ ادب و آداب،مجلس کے اپنے آداب، آنے جانے والوں کے مراتب کا خیال رکھنا، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ پیش آنے کے ڈھب، یہ سب ہماری تربیت کا حصہ تھے۔

مگر زبان اور شعر و سخن کی جیسی تربیت ایام عزا میں ہوتی تھی او ریقین ہے کہ اب بھی ہوتی ہے ا س کا کوئی نعم البدل نہیں۔وہ بنیادی تربیت ہوتی ہے جو تمام عمر ہمارے ساتھ ساتھ لگی رہتی ہے۔عزاداری کا ایک اور پہلو غور طلب ہے وہ یہ کہ مجالس میں ذاکر حضرات جو تقریر کرتے ہیں وہ ساری کی ساری واقعہ کربلا تک محدود نہیں ہوتی بلکہ مصائب اہل بیت آخر میں پڑھے جاتے ہیں، اس سے پہلے تقریر کا بڑا حصہ علم و دانش ، حکمت و آگہی کے لئے وقف ہوتا ہے۔ اس دوران ذرا غور کریں تو منطق اور دلیل کی باریکیاں سمجھ میں آتی ہیں جو کبھی لا شعوری طور پر اور کبھی عمداًسامع کے ذہن میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔

میر انیس ، مرزا دبیر اور نجم آفندی کا ذکر آیا تو یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ مرثیے کے سلسلے میں بہت کام ہوا ہے اور جدید و قدیم کلام جمع ہوچکا ہے اور بڑی صحت اور عمدگی کے ساتھ چھاپ دیا گیا ہے۔ انیس اور دبیر کے منتخب مرثیے آسانی سے دستیا ب ہیں۔ جہاں تک نجم آفندی کا تعلق ہے ، انہوں نے بے مثال نوحے کہے ہیں۔ میری کم سنی کے دنوں میں ان کے نوحوں کا مجموعہ ’’بیاض غم ‘‘کے نام سے ہم لڑکوں کو دے دیا گیا تھا اور ہم وہ مقبول نوحے پڑھا کرتے تھے جن میں جدید شاعری کی نمایاں جھلک نظر آتی تھی۔ مثال کے طور پر :

سجدے سے سر کسی کا اٹھا، روشنی ہوئی

عشرے کی صبح آئی قیامت بنی ہوئی

وہ سامنے حسین کے میدانِ کربلا

کانوں میں وہ اذاں علی اکبر کی دی ہوئی

اسی طرح ان کا ایک نوحہ آج تک یاد ہے جس میں امام حسینؓ کی بہن حضرتِ زینبؓ کے دو نو عمر بیٹوں کے میدان جنگ میں اترنے کا منظر ہے:

زینب کے دلارے ہیں، زینب کے دلارے ہیں

کس شوق سے چاہت سے مقتل کو سدھارے ہیں

ہیں چاند سی شکلیں بھی، انداز بھی پیارے ہیں

گیسو کسی بی بی کے ہاتھوں نے سنوارے ہیں

زینب کے دلارے ہیں

ڈر تھا کہ نجم آفندی کہیں گم نام نہ رہ جائیں،کینیڈا کے ڈاکٹر تقی عابدی نے ان کا لکھا ہوا ایک ایک مصرع یک جا کرکے ان کی کلیات شائع کردی۔ بڑا کام کیا۔ ان کا کہا ہوا ایک اور نوحہ تھا: شبیر کا ماتم چاند میں ہے، شبیر کا ماتم تاروں میں حقیقت یوں ہے کہ یہ ماتم کہاں نہیںہو تا لیکن دنیا کے ہرگوشے اور ہر علاقے میں لوگ اپنی اپنی طرح مناتے ہیں۔ ہم ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ہر سوگوار کا اپنا انداز،اپنا طریقہ ہے۔ مجھے نو عمری میں کئی بار یوپی میں پٹھانوں کے شہر خورجہ میں یوم عاشور منانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بھی وہی روایتی ماتمی جلوس نکلتا تھا۔ اس جلوس کے آگے آگے ایک شہنائی نواز چلا کرتا تھا جو اپنی شہنائی پر کسی نوحے کی طرز بجایا کرتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ خورجے والوں کی اپنی اختراع ہے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہر بنارس میں ہندوستان کے سب سے بڑے شہنائی نواز استاد بسم اﷲ خاں محرم کے جلوس کی راہ میں ننگے سر ننگے پاؤں کھڑے ہوکر اپنی شہنائی پر ایک نوحے کی طرز بجایا کرتے تھے۔ اس روز ان کی شہنائی سننے کے لئے دور دور سے لوگ آتے تھے۔اپنے ایک انٹرویو میں بسم اﷲ خاں اس بارے میں بات کرتے کرتے گلو گیر ہوگئے۔ یہ عالم تھا ان کی عقیدت کا۔ سوچتا ہوں کہ بنارس کی کسی شاہراہ کے کنارے اتنا بڑا فن کارجب کربلا میں قافلہ حسینی پر ٹوٹنے والی آفت کی داستان اپنی شہنائی کی زبان میں کہتا ہوگا تو اس کے سروں میں کس غضب کی تاثیر ، کس بلا کا سوز اور کس شدت کا درد ہوتا ہوگا۔ تصور کرنا مشکل نہیں۔ٖٖآپ بھی کرکے دیکھئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

نقل از روزنامہ جنگ

صحابی رسول بھی قاتلین حسین میں شامل تھے

چند صحابہ کربلاء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔
ان میں سے 8 صحابہ کے نام ذکر ہو رہے ہیں:

1 . كثير بن شهاب الحارثي:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی : 430:
كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص).
کثیر بن شھاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔
تاريخ أصبهان ج 2 ص 136 ، ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت – 1410 هـ-1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : سيد كسروي حسن
قال ابن حجر:
يقال ان له صحبة … قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.
اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت.
2 . حجار بن أبجر العجلي:

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے:
حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.
اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 2 ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة … وحجار بن أبجر العجلي… .
امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 411

وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلاء پہنچا:
قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری:
وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.
وہ کربلاء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 416

  1. عبد الله بن حصن الأزدی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔
طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 4 ص 61 رقم 4630، ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

کربلاء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا:
وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.
عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 417

  1. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن …
اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔
الاستيعاب ج 2 ص 834 رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت.

اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا:
قال ابن الأثير المتوفي: 630هـ : وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.
وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلاء میں حاضر ہوا۔
الكامل في التاريخ ج 3 ص 417 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت

  1. عزرة بن قيس الأحمسی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي … وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔
اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)

الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 125 رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.
اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة … وعزرة بن قيس الأحمسی۔
اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 411

گھوڑے سواروں کا سالار:
وجعل عمر بن سعد … وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 419
وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔
شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا:
واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر… وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 424
6 – عبـد الرحمن بن أَبْـزى:

له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔
وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

الإصابة – ابن حجر – ج 4 ص 239

قال المزّي: «سكن الكوفة واستُعمل عليها»، وكان ممّن حضر قتال الإمام عليه السلام بكربلاء۔
مزّی کہتا ہے کہ وہ کوفے میں رہتا تھا۔ وہ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کربلاء حاضر ہوا تھا۔
تهذيب الكمال 11 / 90 رقم 3731.
7 – عمرو بن حريث:

يكنى أبا سعيد رأى النبي صلى الله عليه وسلم۔
اس نے نبی(ص) کو دیکھا تھا۔
أسد الغابة – ابن الأثير – ج 4 ص 97
سپہ سالاروں میں سے تھا:
ومن القادة: «عمرو بن حريث وهو الذي عقد له ابن زياد رايةً في الكوفة وأمّره على الناس.
ابن زیاد نے اسے کوفہ میں علم جنگ دیا اور لوگوں پر امیر بنایا تھا۔
بحار الأنوار 44 / 352.
وبقي على ولائه لبني أُميّة حتّى كان خليفة ابن زياد على الكوفة.
بنی امیّہ کے لیے والی رہا یہاں تک کہ ابن زیاد کوفہ کا خلیفہ تھا۔
أنساب الأشراف 6 / 376.
8 – أسماء بن خارجة الفزاری:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

وقد ذكروا أباه وعمه الحر في الصحابة وهو على شرط بن عبد البر۔
اس کو صحابہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 1 ص 195 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت
امام حسين(ع) کے قتل کرنے میں اس کا شریک ہونا:

دعا ابن زياد … وأسماء بن خارجة الفزاري، … وقال: طوفوا في الناس فمروهم بالطاعة … وحثوهم على العسكرة. فخرجوا فعذروا وداروا بالكوفة ثم لحقوا به۔
اسماء بن خارجہ یہ لوگوں کو بنی امیہ کی اطاعت اور امام حسین سے جنگ کا حکم دیتا تھا۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 416.

ب: یزید کی طرف سے امام حسين(ع) کو شھید کرنے کا حکم صادر ہونا:
یزید کے قاتل ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ خود کربلاء جا کر امام حسین(ع) کو قتل کرے بلکہ جب ایک حاکم کے نیچے کام کرنے والے اس کے وزراء وغیرہ جب ہر کام کے انجام دینے میں حاکم کے تابع ہوتے ہیں تو ان سب کے کام اور سب کی کامیابی اور ناکامی اس حاکم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یزید کے امام حسین(ع کے قاتل ہونے میں بھی ایسے ہی ہے۔
ایک دوسری عبارت کے ساتھ کہ: يزيد بن معاوية قاتل امام حسين (ع) ہے لیکن ابن زياد، و شمر و عمر بن سعد. کی تلوار کے ساتھ۔ یعنی تلوار وہ چلا رہے تھےلیکن حکم یزید کا تھا۔

ذهبی لکھتا ہے کہ:

خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.
امام حسین(ع) نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے عراق کے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کو انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بیجھا۔

شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام ج 5 ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي – الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى
محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء ج 3 ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة – بيروت – التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي
یہی مطلب ابن عساکر سے بھی نقل ہوا ہے:
تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.

جلال الدین سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.
يزيد نے عبيد الله بن زيادکہ جو والی عراق تھا اس کو امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔
تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت.

ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ:
أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.
میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار کیا گیا تھا اور میں ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کو انتخاب کیا۔
الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324.

ابن زياد نے امام حسين(ع) کو خط لکھا کہ:
قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام.
مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلاء میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں۔ والسلام

کربلائیات

آپ ذیل میں جو فہرست دیکھ  رہے ہیں وہ در حقیقت امام حسین اور کربلا سے مربوط کتابوں کی فہرست ہے۔

بر صغیر میں اس عنوان پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور عربی و فارسی زبان سے بہت ساری کتابیں اور مقالات ترجمہ کی گئیں ہیں ۔پہلے یہ سارا علمی مواد کتابخانوں کی زینت تھا شوقین ااور ذمہ دار افراد باضابطہ مطالعہ کیا کرتے تھے ۔مگر اب ٹکنالوجی کی ترقی نے ہمیں دوسرے لایعنی کاموں میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔میڈیا  اپنی جگہ کوئی بری چیز نہیں بس ہمیں اس کا صحیح استعمال آنا چاہیے ۔

وقت کا تقاضہ ہے لوگوں کی بدلتی زندگی کے ساتھ تبلیغ کی روشیں بھی بدلی جائیں ۔جہاں کتابخانوں سے دوری کتابوں کی تباہی کا  سبب بن رہی ہے وہاں ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی حفاظت  کریں اور مطالعہ کی ترویج کا شوق پیدا کریں  اس لیے کہ  یہی کتابیں ہماری قوم کا اصلی سرمایہ اور ہماری شناخت کا ذریعہ  ہے۔

۔ پہلے تو کتابوں کو ڈیجیٹلایز کیا جائے تاکہ انہیں   مکمل نابود ہونے سے بچایا جائے۔پھر ان کتابوں کی  پی ڈی اف بناکر اسے الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عام کیا جائے اس لیے کہ ہماری نسل دین سے بے خبر اور ہمارے دین و ایمان کے دشمن مخالفین پوری طرح چوکنا ہیں ۔اگر اس نظریات کے ہجوم کے دور میں ہم  نے اقدام  نہیں کیا تو عند اللہ مسئول ہوں گے ۔آج سب کے پاس موبایل ، لپٹاپ،ٹاب اور  نٹ کی سہولت ہے ہم انہیں اس ٹکنالوجی کا صحیح استعمال سکھانے کے ساتھ ساتھ ایسا علمی اور فکری مواد بھی فراہم کریں جو انکی کی دینی بصیرت اوراسلامی  تربیت کیلیے مفید ہو۔

ماشاء اللہ  کم ہی صحیح مگر کچھ افراد اب بھی میدان میں ہیں نئی تخلیقات تو کم ہوگئی ہیں مگر ترجمے اب جاری ہیں اور کچھ لوگ اس دور میں بھی کتابیں اور مجلات چھاپنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کچھ  ان علمی آثار کی معرفی میں مشغول ہیں  تو کچھ لوگ ان کتابوں کی عکس برداری کرکے انکی پی ڈی اف بناکر دوسروں کے اختیار میں دے رہے ہیں ۔

پی دی اف کتابیں  کبھی چھپی ہوئی کتاب کا درجہ نہیں لے سکتیں مگر جو لوگ کتابخانہ نہیں جاسکتے یا ملک اور شہر سے دور تبلیغ و تحقیق  میں مصروف ہیں تو ان کیلئے اس طرح کی کتابیں بہت مفید واقع ہوسکتی ہیں ۔پی ڈی اف کتاب کو آپ ایک طرح کا اشتہار سمجھیے اگر کتاب پسند آئے تو اسے خرید کر بڑھیے تاکہ کتاب چھاپنے والوں کا حوصلہ پست نہ ہو۔جن کتابوں کے مصنف اب بقید حیات نہیں اور انکے علمی آثار ملی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو فورا  ناشرین  اور لواحقین کی اجازت  سے ڈیجیٹلایز  کرلینا چاہیے اور جو قید حیات ہیں ان سے اجازت طلب کرلینی چاہیے در ہر صورت ان کتابوں کو  جس طرح بھی ہو محفوظ اور عام کرنا  وقت کی اہم ضرورت ہے۔

کئی افراد احیاء آثار  میں مشغول ہیں قم مقدس میں مولانا طاہر عباس اعوان صاحب  مرکز احیاء آثار برصغیر کے ذریعہ اور، ہندوستان میں مولانا شہوار نقوی صاحب قبلہ  کتابوں کی معرفی کے ذریعہ اور جناب اسیف جائسی صاحب  میں احیاء آثار میں مسلسل مشغول ہیں مفید کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ یقینا اور  بھی بہت سارے افراد ہیں اللہ ان سب کی حفاظت فرمائے ۔

میں نے بھی پہلے ایران میں مولانا طاہر صاحب کے ساتھ اس کام میں حصہ لیا اور  یہاں ہندوستان آنے کے  بعد وقت کی ضرورت کے پیش نظر “معصومہ قم اسلامک انسٹیٹیوٹ”کی بنیاد ڈالی جہاں ۴ سے ۱۴ سال کے  ۱۵۰ سے زیادہ بچوں کو   شام کے اوقات میں  دینی تعلیم دی جاتی ہے   اس کے علاوہ دیگر تبلیغی مصروفیات سے وقت نکال کر اسی انسٹیٹوٹ کے تحت  کتابوں کی  جمع آوری، عکس برادری، اور پی ڈی اف سازی  اور کتابوں کی معرفی میں مشغول ہوں ۔اس کار خیر  میں میرے فرزند کے علاوہ اور بھی افراد ہیں جو میرے ساتھ شامل ہیں ۔

کتاب خانوں میں اور نٹ پر کتابوں کی موجودگی کے باوجود لوگ کتابوں سے بھر پور استفادہ نہیں کر پاتے اس کی ایک وجہ کتابوں سے عدم آشنائی اور تلاش کتاب کی زحمت اور معتبر کتاب کی عدم تشخیص  ہے انہی وجوہات بناپر وہ کماحقہ کتابوں سے فیض نہیں اٹھا پاتے ۔ان مشکلات کو دیکھ کر میں  نے فرد فرد تک کتاب پہنچانے کا بیرا اٹھا اور واٹساپ اور ٹیلیگرام پر “شیعہ علمی آثار ڈیجیٹل لائیبریری” نامی گروپ بنائے ۔جہاں دنیا بھر کے اردو داں شیعہ مومنین و مومنات اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں ۔ان کی مورد نظر کتاب کو منٹوں میں بھیج دیا جاتا ہےاور اس کام کیلئے میں  دن میں  یا رات میں جب بھی وقت ملےاہل علم کی خدمت میں آن لائن رہتا ہوں۔ارسال کتب کے علاوہ کتاب  کی جمع آوری ، عکس برداری اورپی  ڈی اف  سازی کا اہتمام کرتا ہوں  اور ان کتابوں پر تبصرہ لکھ کر اہل علم کے حوالے کرتا ہوں ۔اللہ کا شکر ہے کہ اہل علم کی قابل توجہ تعداد  کو میرے اس کام سے فائدہ پہنچ رہا ہے وہ   سب میرے کو اس  کام سراہتے ہیں اور حوصلہ دلاتے ہیں ۔اللہ ہم سے اور آپ سے  اس کام کو قبول فرمائے ۔

اس بار میں ماہ محرم کی آمد پر “کربلائیات ” کے عنوان سے کتابیں اکٹھا کیں تاکہ مومنین طلباء اور علماء کے کام آئے حیدر آباد  دکن میں ان کتابوں کی ڈی وی ڈیز لوگوں تک پہچائی گئیں یہ دیکھ کر کئی لوگوں نے ہندوستان کے مختلف گوشوں سے اس  علمی ذخیرہ کی مانگ کی تو میں نے چند  افراد کیلئے پن ڈرایو کے ذریعہ یہ علمی مواد بھیجنے کی ذمہ داری قبول کی  ۔اس پن ڈرایو میں کیا ہے  اس کا اندازہ آپ کو درج ذیل اردو کتابوں کی فہرست سے ہوجائے گا یہی حال فارسی اور عربی کتابوں کا ہے اب مجھ میں اتنی طویل فہرست لکھنا کا حوصلہ نہیں ہے اس لیے بس اردو کتابوں کی فہرست پر اکتفا کررہا ہوں اورآپ دیکھ رہے ہیں کہ اس موضوع پر   جس نہج میں کتابیں جمع کی گئیں ہیں  ویسے ہی تقریبا ہر موضوع پر  کتابیں موجود ہیں جو تقریبا ہ۵۰۰ جی بی سے زیادہ  کا ڈیٹا ہے۔ آپ چاہیں تو پن ڈرایو کی جگہ “ہارڈ ڈسک کے ذریعہ  یہ سارا علمی مواد مجھ سے طلب کرسکتے ہیں۔

کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جب سب نٹ پر  ساری کتابیں موجود ہے تو اسے اس طرح عام کرنے کا کیا فائدہ تو جواب یہ ہے کہ آپ سرچ  کی زحمت اور نٹ کے خرچ سے بچ جائیں گے کا آپ کا وقت بچے گا اور معمولی خرچہ میں آپ کو بہت کچھ ہاتھ آجائے گا۔  آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے ہمارے ان اعمال کو قبول فرمائے اور تمام مومنین کو جسمانی اور روحانی وبا سے محفوظ فرمائے ۔ والسلام   محمد عباس مسعود حیدرآبادی

آپ  سے میرے والد حیدر علی ابن محی الدین حیدر صاحب کیلئے سورہ فاتحہ کی درخواست ہے

سیرت و فضائل امام حسین

غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں قیام حسین

سر ابراہیم و اسماعیل یع معنی ذبح عظیم

ائمہ معصومین کی سیاسی زندگی کا تحقیقی جائزہ

احسن المقال جلد اول

فضیلتوں کے نمونے

تذکرہ معصومین

بھار الانوار حصہ دوم

احکام عاشورا ترجمہ قربان الشہادہ

کربلا کا فاتح اعظم

جلاء العیون جلد اول

بین الاقوامی شھید اعظم

ادراک حسینیت

لمحات جاویدان حیات امام حسین

چودہ ستارے

تجلیات حسین

استاد مطہری

مولا حسین

چودہ ساترے چودہ سورجوں کا عروج

تذکرۃ الاطھار

اسلام کے محافظ

نقوش عصمت

حسین اور اسلام

امام حسین دلربائے قلوب

اسوہ حسینی

نواسہ نبی حسین ابن علی

ذبح عظیم

امام حسین کی تعلیمات

الخصائص الحسینیہ ۲ جلدی

ہمارے ائمہ اطھار

رھنمایان اسلام

انتخاب طبری

امام حسین اور سنت رسول

ہمارے ائمہ کی سیاسی جد و جہد۔رھبر معظم

سب کے حسین

ائمہ اثنا عشر

امام حسین اور واقعہ کربلا

میراث انبیاء

سیرت حسین ابن علی

ائمہ اہل بیت کی فکری و سیاسی زندگی

ائمہ اہلبیت کی سیرت سے خوشبوئے حیات

شہید انسانیت

شہید اعظم-ریاض علی بنارسی

۲۔ سیرت و فضائل امام زین العابدین

سید الساجدین

جلاء العینین فی سیرۃ علی ابن  الحسین

امام زین العابدین کی سیاسی زندگی

امام زین العابدین کی زندگی

صدائے حضرت سجاد

۳۔تفصیلی واقعہ کربلا اور اس کے اسباب و نتائج

یثرب کا مسافر زمین کربلا پر

مجاھدہ کربلا

حماسہ حسین سے متعلق شھید مطھری سے ۱۱۰ سوال

واقعہ کربلا

واقعات کربلا کے اسباب وقوع

محاربہ کربلا

شھادت زار کربلا

ارض کربلا پر فیصلہ کن مقابلہ

واقعہ کربلا درس اخلاق

مدینہ منورہ سے شام تک ۳ جلدی

شہید

امن عالم اور واقعہ کربلا

واقعہ کربلا

مدینہ سے مدینہ تک

عبرتھائے عاشورا و تاریخ

پس منظر کربلا

کربلا کے اعداد و شمار

مرکز انسانیت

قیام امام حسین اسباب و نتائج

تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا کی اھمیت

حسین شناسی

مقصد حسین

قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ

تاریخ عاشورا

کربلا کا تاریخی واقعہ مختصر ہے یا طولانی

کربلا کتھا

تفسیر سیاسی قیام امام حسین

واقعہ کربلا کی رد عمل میں اٹھنے والی تحریکوں کا تحقیقی جائزہ

کربلا سے کربلا تک

تفسیر عاشورا

کربلا کا تاریخی پس منظر

حدیث کربلا

حرا سے کربلا

۴۔مقاتل

دمع ذروف در ترجمہ لہوف

بیت الاحزان

بحر المصائب

ابواب المصائب

ذکر الشہادتین

تاریخ سر حسین

بحور المصائب ۲ جلدی

الدمعۃ الساکبہ ۳ جلدی

ذکر المصائب

روضۃ الشہداء ۲ جلدی

جامع التواریخ فی مقتل الحسین

سعادۃ الدارین فی مقتل الحسین

ریاض المصائب

انتخاب مصائب –ترجیحات و ترمیمات

روایات عزا

مصائب آل محمد

مصائب الشیعہ۳ جلدی

ضیاء العین

سردار کربلا

مھییج الاحزان

مقتل لہوف

مقتل الحسین

مصائب الشیعہ ۴ جلدی

ینابیع المصائب

واقعہ کربلا ترجمہ مقتل ابو مخنف

نفس المہموم

۵۔شہدائے کربلا

عقد جناب قاسم-دق الخیشوم

سوانح حضرت زہیر ابن قین

قمر بنی ہاشم

تاجدار وفا  عباس ابن علی

عقد جناب قاسم-حجج قاطعہ

سوانح حضرت مسلم ابن عوسجہ

خصائص عباس علمدار

حضرت عباس القاب کے آئینہ

سوانح حضرت مسلم ابن عقیل

ہمارے شہید

سوانح حضرت حر

علمدار کربلا حضرت عباس

فرزندان مسلم

شہدائے کربلا-علامہ نقن

سوانح حضرت  ہلال ابن نافع

علمدار کربلا

یتیمان مسلم

ہلاکت و شہادت-علامہ نقن

فلسفہ شہادت

۶۔ کربلا کی خواتین

سیرت جناب زینب

اسلام کی نامور خواتین

عورت کا مقام

اسلام میں خواتین کے حقوق

کردار خاتون کربلا

علی کی بیٹی

زینب زینب ہے

زینت کربلا

نمونہ صبر زینب

نبی کی نواسی  حضرت زینب

مظلومہ کربلا

مسافرہ شام

۷۔ عزاداری مظلوم کربلا  مشروعیت ، جواب شبہات،تاریخ

تصویر عزا

براہین ماتم

اثبات عزا

اثبات عزاداری

عزاداری کیوں

عزاداری اہلبیت کی نظر میں

زندہ جاوید کا  ماتم

تعزیہ داری کی مخالفت کا راز

ماتم اور صحابہ

ماتم اور ازواج نبی

گریہ و ماتم کا تحقیقی جائزہ

فلسفہ عزا

تاریخچہ عزادار ی حسینی

ہماری عزاداری

ہم ماتم کیوں کرتے ہیں

معرفت ماتم و فدک

فلسفہ عزاداری اور قیام امام حسین

ذکر حسین کی ضرورت

ہندوستان مین شیعیت اور عزاداری

تہذیب غم

ذو الجناح-علامہ نقن

ذو الجناح –آقا مہدی لکھنوی

عشرہ محرم اور مسلمانان پاکستان

لغات عزا

تبصرۃ المغموم

اصلاح المحافل و المجالس

اصلاح الرسوم الظاہرہ

آداب اہل منبر

اشکوں کا را ز

قمہ زنی مراجع کی نظر میں

۸۔ اقوال و خطبات امام حسین ، امام زین العابدین و  جناب زینب

حسین ابن علی از مدینہ تا کربلا

کلام امام حسین

حکمت نامہ امام حسین

گفتار دلنشیں

دربار یزید میں سیدہ زینب کا خطبہ

خطبہ زینب کا تاریخی پس منظر

خطبات کربلا-علامہ نقن

خطبات امام حسین

اسرار زیارت عاشورا

زیارت عاشورا اور اس کے اثرات

معجزات و کرامات اور داستان و قصص

کنوز المعجزات

معجزات چہاردہ معصومین

معجزات حضرت عباس

تاریخ معجزات سر حسین

دلائل حقانیت معجزات امام رضا

شیر خدا کے معجزات

معجزات آل محمد ۳ جلدی

عیون المعجزات

سچے واقعات

عبرت انگیز واقعات

مولائی داستانیں

دریچہ کربلا

پچاس موضوعات پر سو واقعات

پندتاریخ

حیرت انگیز واقعات

ذخیرہ قصص

۹۔مجموعہ ہائے مجالس

مجموعہ تقاریر ۳ جلد-علامہ نقن

لا تفسدوا فی الارض-علامہ نقن

احراز العوائد و تشئید العقائد ترجمہ فوائد المشاہد و نتائج المقاصد –شیخ جعفر شوستری

انا من حسین-علامہ ذیشان

حسین منی-علامہ ذیشان

محافل و مجالس-علامہ ذیشان

شریعت بدل نہیں سکتی-علامہ نقن

مصباح المجالس ۵ جلدی-علامہ ظفر حسن امروہوی

کربلا شناسی-علامہ ذیشان

رسالت الیہ-علامہ ذیشان

بارہ مجلسیں-علامہ ذیشان

مجالس شبیر-شبیر حسین نجفی

نعیم الابرار-نعیم الملت غلام حسین

مجموعہ تقاریر مبلغ اعظم-محمد اسماعیل

کفایۃ الواعظین حصہ سوم-حافظ کفایت حسین

مجالس الغروی-عقیل الغروی

مجالس الحسین-محمد حسین لکھنوی

چودہ بصیرت افروز مجالس-ابن حسن جارچوی

مجالس عزائے بنت زہرا-شبیر حسین

سیرت امام زین العابدین-حسن ظفر

امامت و ملوکیت-حسن ظفر

عظمت اہل بیت-محمد بشیر فاتح ٹیکسلا

گلزار خطابت-علامہ حسین بخش جاڑا

انسان معاصر اور قرآن-طالب جوہری

اساس آدمیت اور قرآن-طالب جوہری

ولایت معصومین-حسن ظفر

مکارم الاخلاق-حسن ظفر

میراث عقل و وحی-طالب جوہری

منصب ہدایت اور قرآن-طالب جوہری

عالمی معاشرہ اور قرآن-طالب جوہری

انسانیت کا الوہی منشور-طالب جوہری

ذکر معصوم-علی حسن اختر امروہوی

انوار خمسہ-مقدس زنجانی

مجالس ترابی ۶ جلدی

میزان ہدایت اور قرآن-طالب جوہری

حسین فرزند مصطفی-مرزا اطہر

اسلام اور دہشت گردی-مرزا محمد اطہر

شہادت صادقین-مہدی حسن واعظ

سائینس اور غلبہ اسلام-کلب صادق

ہدایت و گمراہی-مرزا اطہر

غدیر سے کربلا تک-مرزا اطہر

خاندان رسالت-مرزا اطہر

حسین وارچ انبیاء-مرزا اطہر

بناء لا الہ الا اللہ-عرفان حیدر

اطاعت رسول-عرفان حیدر

خاک کربلا-محمد باقر شاہ

المجالس المرضیہ-محمد باقر شاہ

خطبات محسن دو جلدی

مقصد بعثت-عرافن حیدر

صراط مستقیم-عرفان حیدر

شریعت اور شیعیت-عرفان حیدر

مجالس الواعظین-ذبیح اللہ محلاتی

مجالس خاتون-سید غلام حیدر

مجموعہ مجالس خطیب آل محمداظہر حسن زیدی

نسیم المجلاس ۲ جلدی

تحفۃ الذاکرین*سید افسر حسین

نجم المجالس-نجم الحسن کراروی

نور محمد-طاہر جرولی

نجات-طاہر جرولی

حق شہادت-مجالس

حدیث کساء کا پس منظر-مجالس

چھ تقریریں ولایت کے موضوع پر

تنویر المجالس

فلسفہ زیارت اور مقام زائر-صادق حسن

عمدۃ المجالس

رہنمائے  ذاکری-علامہ نقن ۲ جلدی

خطیب ترجمان اسلام-۳ جلدی

مجالس حق زہرا

مجالس حسینیہ

مجالس المبتدئین

گفتار عاشورا-مجالس

مجالس گلفام

مجالس محسنہ

مجالس شام غریباں

مجالس زیدی

یوم الحسین -تقاریر

آداب کارواں-شہید عارف حسینی

پیام نور-شہید عارف حسینی

پیراہن یوسفی ۱۰۔ رثائی ادب یعنی مرثیہ،سلام،سوز،نوحے، اور انجمنوں کی بیاضوں پر بے شمار کتابیں شامل ہیں۔

مولانا سید ابن حیدر عبقری خطیب

از۔ مولانا ڈاکٹر شہوار حسین نقوی

اخلاق و محبت، شفقت و مہربانی، تواضع و انکساری، متانت و دیانت، فطانت و ذہانت سے سرشار جس بزرگ عالم دین کی تصویر ذہن میں ابھر کر آتی ہے وہ ذات مولانا سید ابن حیدر کی تھی ، وہ ولادت اور بود و باش ہی کے اعتبار سے لکھنوی نہیں بلکہ شائستگی، نفاست، طرز معاشرت، شیریں بیانی اور لہجے کی نرمی میں بھی لکھنوی تہذیب کے وارث تھے ۔
آپ نے ۲۸؍ ستمبر ۱۹۳۴ء کو سرزمین علم و ادب لکھنؤ میں سفر حیات کا آغاز کیا، جس ماحول میں آپ نے آنکھیں کھولیں وہ خالص علمی اور ادبی تھا، اس وقت لکھنؤ ارباب علم سے بھرا ہوا تھا لکھنوی تہذیب اپنے شباب پر تھی، ہر طرف شعر و سخن کی بزم آرائیاں تھیں جو اہل ادب کے دامن کو ادبی شہ پاروں سے بھر رہی تھیں۔ اہل علم کی مجلسیں علم و معرفت سے فضا کو مشکبار بنا رہی تھیں، اہل معرفت خشیت الٰہی اور پرہیزگاری سے ماحول کو روحانی بنا رہے تھے ایسے علمی اور روحانی ماحول میں مولانا کی پرورش ہوئی۔
آپ کے والد ماجد مولانا علی حیدر صاحب مرحوم متقی و زاہد و ابرار تھے، لہٰذا ابتدائی تعلیم گھر ہی پر والد بزرگوار سے حاصل کی۔
مولانا کا بچپن ہی سے مذہبی تعلیم کی طرف رجحان تھا لہٰذا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ مشارع الشرائع المعروف بہ جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لیا۔
جامعہ ناظمیہ میں سرکار مفتی اعظم ؒ کی مسند درس بچھی ہوئی تھی اور بڑی تعداد میں طلباء اس چشمہ پر فیض سے فیضیاب ہورہے تھے، مولانا نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا اور سرکار مفتی اعظم کی بارگاہ میں شرف حاضری حاصل کیا ۔سرکار مفتی اعظم سید احمد علی طاب ثراہ کی جامع شخصیت کے زیر سایہ رہ کر آپ کسب علوم میں مصروف ہوگئے۔ مدرسہ اسو قت روحانی اور با عمل اساتذہ سے چھلک رہا تھامختلف علوم و فنون کے اساتذہ طلباء کی تربیت اور انہیں علم سے آراستہ کرنے میں مشغول تھے۔
ایک طرف شہنشاہ ادب مولانا سید رسول احمد صاحب گوپالپوری انہیں گلستان ادب کی سیر کرارہے تھے تو دوسری طرف بابائے فلسفہ مولانا سید ایوب حسین صاحب سرسوی بحر معقولات میں غواصی سکھا رہے تھے۔
غرض کہ مولانا کو ہر بارگاہ سے نیاز حاصل رہا اس طرح آپ نے ۱۹۵۸ء میں مدرسہ کی آخری سند ممتاز الافاضل امتیازی نمبروں سے حاصل کی ۔ آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مدرسہ میں مدرس رکھا گیا اس وقت سے تا ہنوز مصروف تدریس رہے
آپ کا انداز تدریس مشفقانہ تھا عبارت کو نپے تلے لفظوں میں اس طرح حل فرماتے کہ فہم مطلب آسان ہوجاتا تھا تطبیق عبار ت کے فن میں مہارت حاصل تھی ، آپ کا بیان حشو و زوائد سے پاک ہوتا تھا ، سینکڑوں کی تعداد میں آپ کے تلامذہ ہیں جو دنیا کے گوشے گوشے میں مصروف تبلیغ ہیں، راقم کو بھی آپ سے تلمذ حاصل تھا ۔
آپ کا اخلاق بے مثال تھا ہر ایک سے مسکرا کر ملنا، خیریت معلوم کرنا آپ کا خاصہ تھا ، وسعت قلبی کا یہ عالم تھا کہ اپنے شاگردوں کا بھی انتہائی احترام کرتے تھے اور انہیں اعلیٰ مقام دیتے آپ سے جتنی بار بھی ملاقات ہوئی ہے ایسے پرتپاک انداز سے ملتے کہ جیسے پہلی ملاقات ہو۔
آپ ایک اعلیٰ مدرس، جید الاستعداد عالم دین ہونے کے علاوہ بلند پایہ اور شہرت یافتہ خطیب اہلبیتؑ بھی تھے۔ آپ جس طرح مسند درس کی زینت تھے اسی طرح مجلس و منبر کی بھی رونق تھے
خطیب اعظم مولانا سید سبط حسن صاحب طاب ثراہ نے ذاکر ی کو جو اسلوب و نہج دیاجس پر آج ہماری ذاکری کار بند ہے، اس اسلوب کو نادرۃ الزمن مولانا ابن حسن نونہروی اعلیٰ اللہ مقامہٗ نے اپنے مخصوص طرز تکلم اور انداز وآہنگ سے جلا بخشی، اُسی اسلوب کے آ مولانا ابن حیدر صاحب قبلہ امین و وارث تھے ۔ نادرۃ الزمن ؒ کے بعد میدان خطابت میں ایک سناٹا سا محسوس ہونے لگا تھا مگر مولانا نے محنت و جانفشانی سعی و جستجو سے وہ ملکہ حاصل کیا جسے سننے کے لئے مومنین بے تاب تھے۔
آپ منفرد لب ولہجہ کے خطیب تھے مقفیٰ و مسجع عبارت ، استعارہ و کنایہ، بندش الفاظ، لفظوں کی نشست وبرخاست سے بیان میں حسن پیدا ہوجاتا تھا
ان تمام خصوصیات کے باوجود آپ نام و نمود سے کوسوں دور اور آپ کی ذات ہر طرح کی تعلی و تفوق سے منزہ رہی افسوس ایسی عظیم شخصیت ۳۱جولائی ۲۰۲۰کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئئ…

Design a site like this with WordPress.com
Get started